اسلام آباد میں جعمرات کی شام پانچ گھنٹے کا ڈرامہ قومی نیوز میڈیا نے براہ راست نشر کر کے ایک مرتبہ پھر تفریح کے
چینلوں کو یقینا ریٹنگ کی جنگ میں پیچھے چھوڑ دیا ہوگا۔ں
ایک مسلح شخص جس کے ذہنی توازن کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، کیسے پوری قوم کو باآسانی نیوز چینلز کے ذریعے ’ہاسٹج‘ بنا سکتا ہے، سب نے دیکھ لیا۔
درجنوں لائیو کیمروں کے سامنے پولیس بھی بےبس تھی ورنہ اس جیسے پاگل افراد سے نمٹنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ چند منٹوں میں اسے وہ ایسا سبق سکھاتی کہ اس کی نسلیں یاد رکھتیں۔ لیکن ایک ایسا میڈیا جو اسے پیشاب کرتے بھی لائیو دکھا رہا ہو، وہاں کوئی بھی کارروائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہی شاید بڑی وجہ تھی کہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ ’ویٹ اینڈ سی‘ کی پالیسی
اپنائے ہوئے تھی۔
یہ تو پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے بغیر سوچے سمجھے یا کسی سے مشورہ کیے بغیر مسلح شخص سے نمٹنے کی دل میں ٹھان لی ورنہ یہ ڈراما ساڑھے پانچ گھنٹوں سے بھی کئی گھنٹے زیادہ چلتا۔ یہ تو زمرد خان کی خوش قسمتی تھی ورنہ انہوں نے اپنے آپ کو اور دیگر افراد کی زندگیوں کو انتہائی خطرے میں ڈالا۔
مسلح شخص محمد سکندر کی یا پولیس کی چلائی گئی گولیاں کسی کو بھی لگ سکتی تھیں۔ زمرد اور سکندر کے بیوی بچے اس کے نشانے پر تھے، یہ تو اس نے گولی نہیں چلائی ورنہ وہ کئی لوگوں کی جان لے سکتا تھا۔
اس کا بظاہر مقصد کسی کو مارنا نہیں تھا ورنہ اسے کوئی اس وقت روک نہیں سکتا تھا۔ زمرد خان نے تو پولیس کے مشورے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ زمرد خان کا خوش قسمت ترین دن تھا کہ سب اچھا ہوگیا لیکن ناکامی کی صورت میں ہیرو کی بجائے ’جان لیوا زیرو‘ کا اعزاز بھی زیادہ دور نہیں تھا۔
میڈیا نے ان سے بعد میں اس خطرے پر بات نہیں کی بلکہ انہیں ہیرو کے طور پر پیش کرنے لگے۔ کیمرے کئی لوگوں کو بےوقوفیوں پر مجبور کر دیتے ہیں۔ امید ہے کہ زمرد خان سلجھے انسان ہیں، وہ ایسا کچھ نہیں سوچ کر گئے تھے۔
خیر بات میڈیا کے کردار کی ہو رہی تھی۔ کمشنر اسلام آباد نے بھی کھل کر کہا کہ میڈیا کو وہاں سے ہٹانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ تھرلر ڈرامے کے دوران آپ درجنوں افراد کو سکندر کے پس منظر میں باآسانی کھڑے دیکھ سکتے تھے۔ خدانخواستہ وہ شخص ان پر گولی چلا دیتا یا مقابلے کے دوران کوئی گولی ان کو لگ جاتی تو جانی نقصان سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ میڈیا کوریج سے زیادہ وہ میڈیا سرکس نظر آ رہا تھا۔
میڈیا کی اس واقعے کی کوریج سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سکندر حیات نے شاید پورے دارالحکومت کو یرغمال بنا لیا ہو مگر اسلام آباد کی فقط ایک شاہراہ کے چند سو مربع میٹر کے علاوہ پورا شہر معمول کے مطابق زندگی گزار رہا تھا۔ ہاں گھروں میں بیٹھے لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹوں کے سامنے میڈیا کی سزائے قید ضرور تھی۔
بھارتی معروف اداکار عامر خان کی ’پیپلی لائیو‘ فلم ہوبہو اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ پر بنائی جا رہی تھی۔ یہ واقعہ یقیناً غیرمعمولی تھا لیکن عام بھی تھا۔ اسلام آباد کی عام شاہراہ پر یہ واقعہ ہوا جس سے کسی اہم شخصیت یا تنصیبات کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
گھنٹوں ایک مسلح شخص کو لائیو دکھانا اسے مزید جوش دینے کے برابر تھا۔ کیمرے ہٹ جاتے تو شاید وہ خود بھی انتظامیہ کی مانتے ہوئے خاموشی سے ہتھیار ڈال دیتا۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ اسے اس شہرت سے مزا مل رہا تھا۔ درجنوں کیمروں کی موجودگی میں اس کا پرامن طریقے سے ہتھیار ڈالنے کا امکان انتہائی کم ہوگیا تھا۔ وہ کیا منہ لے کر واپس لوٹتا؟
امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اس قسم کے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں لیکن پولیس وہاں کنٹرول میں ہوتی ہے نہ کہ میڈیا۔
پولیس ہی میڈیا اور عام شہریوں کے تحفظ کے پیش نظر ایک حد کا تعین کرتی ہے جس سے آگے کوئی ’مائی کا لال‘ صحافی نہیں جاسکتا۔ یہاں صحافیوں کو یہ بات نہ تو پولیس سمجھا سکتی تھی اور نہ ہی مقامی انتظامیہ۔
سکرین پر محض لیبل لگا دینے سے چینل اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں قرار دیے جاسکتے تھے کہ ’بچے نہ دیکھیں‘۔ اتنی سنسنی خیز فلم کو دیکھنے سے کون انکار کرسکتا ہے؟ ہمارے ہاں فلموں کی پیرنٹل گائیڈنس کا کتنوں کو پتہ ہے؟ جب فلم لگتی ہے تو ہر کوئی دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتا ہے۔
لائیو نشریات کی اجازت انتہائی مخصوص حالات میں ہونی چاہیے۔ امید ہے پیمرا اس پر کسی کارروائی کے بارے میں سوچ رہا
ہوگا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130816_media_role_islamabad_sa.shtml
درجنوں لائیو کیمروں کے سامنے پولیس بھی بےبس تھی ورنہ اس جیسے پاگل افراد سے نمٹنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ چند منٹوں میں اسے وہ ایسا سبق سکھاتی کہ اس کی نسلیں یاد رکھتیں۔ لیکن ایک ایسا میڈیا جو اسے پیشاب کرتے بھی لائیو دکھا رہا ہو، وہاں کوئی بھی کارروائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہی شاید بڑی وجہ تھی کہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ ’ویٹ اینڈ سی‘ کی پالیسی
اپنائے ہوئے تھی۔
یہ تو پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے بغیر سوچے سمجھے یا کسی سے مشورہ کیے بغیر مسلح شخص سے نمٹنے کی دل میں ٹھان لی ورنہ یہ ڈراما ساڑھے پانچ گھنٹوں سے بھی کئی گھنٹے زیادہ چلتا۔ یہ تو زمرد خان کی خوش قسمتی تھی ورنہ انہوں نے اپنے آپ کو اور دیگر افراد کی زندگیوں کو انتہائی خطرے میں ڈالا۔
مسلح شخص محمد سکندر کی یا پولیس کی چلائی گئی گولیاں کسی کو بھی لگ سکتی تھیں۔ زمرد اور سکندر کے بیوی بچے اس کے نشانے پر تھے، یہ تو اس نے گولی نہیں چلائی ورنہ وہ کئی لوگوں کی جان لے سکتا تھا۔
اس کا بظاہر مقصد کسی کو مارنا نہیں تھا ورنہ اسے کوئی اس وقت روک نہیں سکتا تھا۔ زمرد خان نے تو پولیس کے مشورے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ زمرد خان کا خوش قسمت ترین دن تھا کہ سب اچھا ہوگیا لیکن ناکامی کی صورت میں ہیرو کی بجائے ’جان لیوا زیرو‘ کا اعزاز بھی زیادہ دور نہیں تھا۔
میڈیا نے ان سے بعد میں اس خطرے پر بات نہیں کی بلکہ انہیں ہیرو کے طور پر پیش کرنے لگے۔ کیمرے کئی لوگوں کو بےوقوفیوں پر مجبور کر دیتے ہیں۔ امید ہے کہ زمرد خان سلجھے انسان ہیں، وہ ایسا کچھ نہیں سوچ کر گئے تھے۔
خیر بات میڈیا کے کردار کی ہو رہی تھی۔ کمشنر اسلام آباد نے بھی کھل کر کہا کہ میڈیا کو وہاں سے ہٹانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ تھرلر ڈرامے کے دوران آپ درجنوں افراد کو سکندر کے پس منظر میں باآسانی کھڑے دیکھ سکتے تھے۔ خدانخواستہ وہ شخص ان پر گولی چلا دیتا یا مقابلے کے دوران کوئی گولی ان کو لگ جاتی تو جانی نقصان سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ میڈیا کوریج سے زیادہ وہ میڈیا سرکس نظر آ رہا تھا۔
میڈیا کی اس واقعے کی کوریج سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سکندر حیات نے شاید پورے دارالحکومت کو یرغمال بنا لیا ہو مگر اسلام آباد کی فقط ایک شاہراہ کے چند سو مربع میٹر کے علاوہ پورا شہر معمول کے مطابق زندگی گزار رہا تھا۔ ہاں گھروں میں بیٹھے لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹوں کے سامنے میڈیا کی سزائے قید ضرور تھی۔
بھارتی معروف اداکار عامر خان کی ’پیپلی لائیو‘ فلم ہوبہو اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ پر بنائی جا رہی تھی۔ یہ واقعہ یقیناً غیرمعمولی تھا لیکن عام بھی تھا۔ اسلام آباد کی عام شاہراہ پر یہ واقعہ ہوا جس سے کسی اہم شخصیت یا تنصیبات کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
گھنٹوں ایک مسلح شخص کو لائیو دکھانا اسے مزید جوش دینے کے برابر تھا۔ کیمرے ہٹ جاتے تو شاید وہ خود بھی انتظامیہ کی مانتے ہوئے خاموشی سے ہتھیار ڈال دیتا۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ اسے اس شہرت سے مزا مل رہا تھا۔ درجنوں کیمروں کی موجودگی میں اس کا پرامن طریقے سے ہتھیار ڈالنے کا امکان انتہائی کم ہوگیا تھا۔ وہ کیا منہ لے کر واپس لوٹتا؟
امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اس قسم کے واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں لیکن پولیس وہاں کنٹرول میں ہوتی ہے نہ کہ میڈیا۔
پولیس ہی میڈیا اور عام شہریوں کے تحفظ کے پیش نظر ایک حد کا تعین کرتی ہے جس سے آگے کوئی ’مائی کا لال‘ صحافی نہیں جاسکتا۔ یہاں صحافیوں کو یہ بات نہ تو پولیس سمجھا سکتی تھی اور نہ ہی مقامی انتظامیہ۔
سکرین پر محض لیبل لگا دینے سے چینل اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں قرار دیے جاسکتے تھے کہ ’بچے نہ دیکھیں‘۔ اتنی سنسنی خیز فلم کو دیکھنے سے کون انکار کرسکتا ہے؟ ہمارے ہاں فلموں کی پیرنٹل گائیڈنس کا کتنوں کو پتہ ہے؟ جب فلم لگتی ہے تو ہر کوئی دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتا ہے۔
لائیو نشریات کی اجازت انتہائی مخصوص حالات میں ہونی چاہیے۔ امید ہے پیمرا اس پر کسی کارروائی کے بارے میں سوچ رہا
ہوگا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130816_media_role_islamabad_sa.shtml