آجکل سوشل میڈیا پر عید گاہ کے گدی نشین پیر نقیب الرحمن کے بیٹے کی شادی نے دھوم مچائی ہو ئی ہے، کیونکہ اس شادی کی فوٹیجز میں سیاسی مگر مچھ، بڑے بڑے گدی نشین، بڑے بڑے مدرسوں کے منتظمین اعلی شامل ہیں اور یہ شادی فائیو سٹار ہوٹل سرینا اسلام آباد میں ہوئی اور سادگی، اور اسلام کے اصولوں کا درس دینے والے ان پیروں نے خوب روپے پیسے کی بارش کی، جو فوٹیجز میں عام دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ غریب مریدین کا پیسہ ہے جو اس شادی پر لگا یا جو کسی اور ایسے پیر کے کسی بیٹے کی شادی پر لگے گا۔ بحرکیف !!!
ان تصاویر کو دیکھ کر حیرانگی نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوئی ہے کہ میرا فیصلہ ٹھیک تھا، میں بھی اسی گدی یعنی عیدگاہ شریف کا مرید تھا لیکن پندرہ سال پہلے 2001 میں میں نے عید گاہ شریف حاضری نہ لگوانے کا فیصلہ کیا، ہوا یوں کہ میں مسجد نبوی میں نماز کے لئے گیا اور دیکھا پیر نقیب الرحمن صاحب بھی اپنے طائفے کے ساتھ مسجد نبوی میں ہیں، کیونکہ یہ ہر سال مریدوں کو لیکر حرم پاک کی زیارت کرنے جاتے ہیں، اور مریدین اپنے پیسے خود دیتے ہیں انکو تو بس یہ ہی خوشنصیبی لگتی ہے کہ حضرت صاحب کے ساتھ مکہ مدینہ دیکھنے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ بیچارے علمی کیفیت یا اسلامک نالج میں صفر ہوتے ہیں، انکا دین بس پیروں کی خدمت ہے، یہی انکی جنت کے حصول کا زریعہ ہے، اور یہ ہر پیر کے مرید کی کیفیت ہے، تو مسجد نبوی میں جب میں نے دیکھا کہ یہاں کسی کو پتہ نہیں کہ عیدگاہ کے گدی نشین ہیں، نہ اللہ ہو کے بلند نعرے جو پاکستان میں حضرت صاحب کے باہر نکلنے یا مسجد جانے پر لگتے ہیں اور نہ کوئی آگے پیچھے خادم اور نہ پہلی صف میں مخصوص جگہ بلکہ عام لوگوں کے ساتھ نبوی میں نماز ادا کر رہے ہیں انکے آگے صفوں میں ہزاروں لوگ ورنہ پنڈی یا پاکستان میں تو مخصوص مصلہ اور کوئی آگے نہیں چل سکتا کیونکہ قبلہ صاحب کو پیٹھ ہوتی ہے۔ یہاںمسجد نبوی تو کئی لوگ ریاض الجنہ میں نمازیں پڑھ رہے ہیں، تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کیا منظر ہے یہاں حضرت صاحب بھی ایک عام آدمی کی طرح سوالی بنے ہوئے ہیں،
انکی عبادت انکے لئے ہے اور خیال آیا جب قیامت کے دن بیٹا ماں کو اور ماں بیٹے کو نہیں پہچانے گی ہر کسی کو اپنی اور اپنے اعمال کی فکر ہو گی تو عید گاہ شریف میرے لئے کیسے ڈھال بنے گا، جبکہ میرے پاس اعمال نہیں بلکہ حضرت کی خدمت ہو گی تو حضرت تو اپنے لئے پریشان ہونگے تو میرا پرسان حال کون ہو گا، تو میں نے فیصلہ کیا کہ بجائے عید گاہ شریف حاضری دینے کے اپنے اعمال پر دھیان دوں، بجائے وہاں چندے جمع کرانے کے کسی حقدار کے کام آؤں، حضرت صاحب کے پاس حاضری کی بجائے اپنے ماں باپ کے پاس حاضری دوں، تحفے تحائف ماں باپ، عزیز واقارب اور حقدار لوگوں کو دوں تو کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ کہیں میں نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا لیکن یہ سرینا ہوٹل اسلام آباد میں پیر صاحب کے بیٹے کی شادی کی تقریب اور اس شادی پر اٹھنے والے اخراجات اور پیسے اڑانے والی فوٹیجز جن میں حضرت صاحب خود شریک ہیں نے مجھے سکون دیا کہ میرا فیصلہ صحیح تھا۔
یہ پیر طریقت اور رہبر شریعت سب مادی ضروریات کو پورا کرنے کے گر ہیں اور میرے لئے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کافی ہیں آپ ہی صحیح پیر طریقت اور رہبر شریعت ہیں اور تا قیامت رہیں گے!
پیر صاحب نے ایک اندازے کے مطابق جو آجکل سوشل میڈیا پر پڑھنے کو ملا ہے، سو کروڑ کے لگ بھگ شادی پر خرچ کیا ہے، جس میں خوب پیسوں کو اڑانے کی بارش دکھائی آ رہی ہے، یہ کوئی فوٹو شاپ ٹرک نہیں بلکہ حقیقت ہے، اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ ساری دولت انکی ذاتی ہے، کسی کا شیرینی یا چڑھاوا نہیں تو بھی پیر صاحب کو ذیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی مثال قائم کریں، وہ تو اپنے مریدین کے لئے ایک سمبل کی حیثیت رکھتے ہیں ، وہ تو لوگوں کو فضول رسموں سے دور رکھنے والے اور غریب لوگوں کی مدد کرنے کا درس دینے والے ہیں، لیکن یہ کیسا درس کہ کروڑوں روپے ہوا میں اڑائے۔ کیا پیر صاحب نے اپنے ہر مرید کو سرینا ہوٹل میں دعوت دی تھی تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نہیں بلکہ ان جاہل لوگوں کے لئے ایک علیحدہ ولیمہ ہوا ہوگا، جس میں چنے والے چاول انکو کہلائے گئے ہونگے اور یہ عقیدت کے بھوکے لوگ تبرک سمجھ کر کھاتے ہیں۔
پیروں کی آمدنی کا واحد زریعہ انکا جاہل مرید ہوتا ہے، جو اپنے پورے پورے وسائل پیر کے قدموں میں ڈال دیتا ہے، میں نے پریکٹیکلی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو آٹے میں نمک نہیں بلکہ نمک میں آٹا ہیں، یعنی اسی فیصد لوگ باقاعدگی سے ان پیر خانوں میں حاضری دینے جاتے ہیں اور وہاں کچھ نہ کچھ دیکھ کر آتے ہیں، ان غریبوں لوگوں کی جمع پونجیوں اور ان شیرینی چڑھاووں سے پیر بڑے بڑے بزنسز اسٹارٹ کرتے ہیں، فیکٹریاں لگاتے ہیں ، گھر بناتے ہیں اور انکے بڑے بڑے کنسٹرکشن پروجیکٹس پر بھی مرید ثواب سمجھ کر مہینوں کام کرتے ہیں۔ مریدین اپنے ماں باپ، اولاد کو بھلے کچھ نہ دیں لیکن پیر خانے میں کچھ نہ کچھ دینا انکی سوچ کے مطابق باعث اجر، خیروبرکت ہوتا ہے۔ جب پیر صاحب ایک بزنس ٹائیکون بن جاتے ہیں تو پھر وہ مریدین کی تعداد کو بڑے بڑے سیاسی مگر مچھوں کا شکار کرتے ہیں،عیدگاہ شریف کی شادی کی فوٹیجز میں دو سابق وزرائے اعظم کو دولہے کے ساتھ کھڑا دیکھیں تو پیروں کی ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے، کہ یہ پیر ان سیاسی لٹیروں کو کبھی نصیحت نہیں کرتے کہ عوام کی یعنی مخلوق خدا کی خدمت کرو، بھلائی کے کام کرو، قوم کو صیحی معنوں میں ڈیلیور کرو اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر میرے پاس نہ آئیں،
لیکن نہیں بلکہ پیر صاحب اور باقی ان کی طرح کے لوگ تو اپنے کئی کام نکلواتے ہیں، عوام ، مرید جائے بھاڑ میں ، انکی لائف بے شک عذاب ہو لیکن پیر صاحب تو ایک پرنس کی لائف گزارتے ہیں۔
پاکستان کے پیروں، مدرسوں کے منتظمین کا ڈیٹا نکالیں اور انکی ابتدا دیکھیں اور حال دیکھیں تو با شعور انسان سمجھ جاتا ہے کہ یہ کسطرح اس مقام تک پہنچے ہیں، پھر انکی اسلام کی خدمت پر بھی نظر دوڑا لیں، اگر انکی تعلیمات میں اتنا دم ہوتا یعنی کوالٹی ہوتی تو پاکستان میں چوری، فراڈ، بد یانتی، ملاوٹ، جعل سازی، لاقانونیت کا نام نشان نہ ملتا کیونکہ پاکستان میں اتنی یونین کونسلز نہیں جتنے مدرسے، پیر خانے ہیں اور اگر یہ ایک ایک کلو میٹر کا رقبہ لے لیں کہ اس رقبے میں رہنے والوں کی اسلام کے اصولوں کے مصابق رہنمائی کرنی ہے تو آج آپکو پاکستان میں جرائم کا نام نشان نہ ملتا، لیکن ہوا بر عکس ہے۔ انہوں نے ان پیری مریدی اور مدرسہ کلچر سے اپنی امارتیں بنائی ہیں اور ایسی امارتیں ہیں کہ انکو گرانا کسی کے بس کی بات نہیں۔
اگر پاکستان کا پیر صحیح معنوں میں اسلام سے محبت کرنے والا ہوتا، تو وہ جاہل عوام کے پیسے سے انکے بچوں کے لئے کالجز، یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنواتے تاکہ ہمارے مریدین سکدی ہوں، انہیں علاج معالجہ ملے، انکے بچوں کو تعلیم ملے، یہ پیر اپنے اردگرد اور اپنے اوپر چھاؤں کیئے ہوئے سیاسی گڈھوں کو سختی سے تلقین کرتے کہ عوام کی صیحی معنوں میں خدمت کرو، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بڑے محلوں کی طلب نہیں کی تو یہ بھی نبی کی تعلیمات، عملی ذندگی کو اپنی ذندگیوں کے لئے نمونہ بناتے، اسلام میں علم پر زور دیا گیا ہے اور یہ اس دینی اور دنیاوی نور ( تعلیم) کو گلی کوچوں تک پھیلاتے تو آج پاکستان کا کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ہوتا۔ان پیروں اور مدرسوں کے منتظمین کے بچے تو ملکی اور غیر ملکی بہترین سکولوں اور کالجوں،یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں لیکن مریدین کے بچے چھوٹو کے لقب سے کسی ورکشاپ میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی عوام کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی مطالعہ نہیں کرتے، ہمیں چاہیئے کہ ہم دینی بکس کا خود مطالعہ کریں، ہم اسلام کو پڑھنے کا اپنے میں شوق پیدا کریں اور اگر ایسی سیچویشن بن جائے تو کافی حد تک پیر خانوں پر رش کم پڑجائے۔
بحرکیف لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، لیکن فائدہ کیا۔۔۔۔ پیروں کے پیر خانے اس وقت تک آباد رہیں گے جبتک عوام جاہل رہے گی اور عوام اس وقت تک جاہل رہے گی جب تک تعلیم پر پوری توجہ حکومتی لیول پر نہ دی جائے گی اور حکومتیوں نے یہ کام نہ پہلے کیا اور نہ آئندہ کریں گی کیونکہ انکی روٹی، روزی کا زریعہ بھی تو جاہل عوام ہیں۔ پیر، مدرسہ چلانے والے اور سیاستدان ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ انکی سانس، انکے پھلنے پھولنے ، ترقی کرنے کا زریعہ جاہل عوام ہیں تو پھر تعلیم کیوں؟
- Featured Thumbs
- http://expresslatest.com/wp-content/uploads/2016/03/2.jpg
Last edited by a moderator: