“The Messenger of Allah ﷺ would begin to fast continuously until we thought he would not stop fasting, and sometimes he used to stop fasting until we thought he would never fast. I never saw Allah’s Messenger ﷺ fasting a complete month except the month of Ramadan, and I have never seen him fasting in a month more than he did in Sha‘ban” (Narrated by al-Bukhari, Muslim and Abu Dawud).
بخاری، مسلم اور ابوداؤد کے مطابق نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے میں بہت روزے رکھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور نبی ﷺ کی سنّت کی پیروری کرنے والے پٹاخے نہیں پھوڑا کرتے تھے۔
اب آپ پرانے دور کے ایک عالم دین جن کو سنّی حضرات امام سیوطی کہتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ لگاتے ہیں، ان کی زبانی سنیے۔
Imam Hafiz al-Suyuti also mentioned in Al-Durr al-Manthur: And Ibn Mardawayh and Ibn ‘Asakir cited: from ‘A’ishah (may Allah be pleased with her), she said:
“The Messenger of Allah ﷺ did not fast more in any month than Sha‘ban because in this month the souls of the living are written in the dead [i.e., in the list of those destined to die] to the point that a man is getting married even though his name is in the list of those to die and a man is performing Hajj even though his name is in the list of those to die.”
یعنی زندگی موت کے فیصلے شعبان کے مہینے میں ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ تھا سن سن کر سن ہوجانے والے سنّیوں کے امام سیوطی کا جسے موصوف نے حدیث کی شکل میں بیان کیا۔
شاید سنّیوں کے امام سیوطی کو کبھی قرآن کریم پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کیوں کہ قرآن اس بارے میں کچھ اور کہتا ہے۔ قرآن میں سورۃ القدر کہتی ہے کہ قدر کے تمام فیصلے لیلۃ القدر میں ہوتے ہیں۔
مطلب جعلی حدیثیں گھڑ کر پھیلانے والے منکرین قرآن نے مسلمانوں کو گمراہ کیا۔
لیکن سنّی ملّاؤں کے اندر کیڑا بھی بہت لمبا ہے۔ سورج مشرق سے نکلتا ہے مگر انہوں نے تاویلیں پیش کر کر کے اسے مغرب سے نکال لینا ہے۔ کہتے ہیں کہ نہیں جی شعبان کا پورا مہینہ نہیں بلکہ زندگی موت کے فیصلے 15 شعبان کی رات کو ہوتے ہیں۔
ایک تو سنّیوں کے اندر امام تھوک کے حساب سے ہیں۔ اور یہ لوگ کسی کے نام کے آگے امام لگا لیں تو وہ امام شیعوں کے 12 اماموں کی طرح معصوم اور ہر خطا سے مبرّا ہوجاتے ہیں۔ شیعوں کو بلاوجہ اکیلے گالیاں کھانی پڑتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان گالیوں کے کچھ حق دار یہ سنّی حضرات بھی ہیں جنہوں نے دین اسلام کے اندر ملاوٹ کر کے امّت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔
Imam Hafiz al-Mundhiri mentioned in al-Targhib wa ’l-Tarhib: from Mu’adh ibn Jabal (may Allah be pleased with him), from the Prophet ﷺ, he said:
“Allah bestows His special attention to His entire creation on the 15th night of Sha‘ban. He then forgives His entire creation except a polytheist and one who harbours enmity.”
یعنی کہ بخاری و مسلم وغیرہ کہتے ہیں کہ شعبان میں روزے رکھو۔ امام سیوطی نے فرمایا کہ شعبان کے مہینے میں زندگی موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ مگر پیٹ نہیں بھرا۔ کھینچ کر لے آئے 15 شعبان کی رات کو۔ 15 شعبان کی رات اللہ تعالیٰ ہر کسی کو بخش دیتے ہیں۔ تو کیا باقی راتوں میں نہیں بخشتے؟ اور کیا یہ پندرہ شعبان کی جو اتنی اہم رات ہے، اس کے اوپر کوئی سورۃ شعبان نازل ہوئی کہ نہیں؟ بھئی لیلۃ القدر کے اوپر سورۃ قدر ہے، تو 15 شعبان کی اتنی عظیم رات جب شیعوں کے بارہویں امام مہدی علیہ السّلام پیدا ہوئے، تو اس اعتبار سے سورۃ شعبان یا سورۃ مہدی نازل ہونی چاہیے تھی ناں؟
جاہل سنّیوں کو شیعوں نے صحیح کا چونا لگایا ہے۔
سنّیوں کے ایک اور امام کا عقیدہ دیکھیے جسے موصوف نے حدیث کے نام پر بیان کیا ہے۔ اللہ کی جھوٹوں پر لعنت ہے، خاص طور سے ان لوگوں پر جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جھوٹی حدیثیں گھڑیں اور ان لوگوں پر بھی جنہوں نے اپنی جہالت، کم عقلی اور فتنہ پردازی کی بدولت ایسی جھوٹی حدیثوں کو قلم بند کر کے قیامت تک کے انسانوں کی گمراہی کا سامان کیا۔
Imam Hafiz al-Mundhiri also mentioned in Al-Targhib wa ’l-Tarhib that Imam Ahmad narrated from ‘Abdullah ibn ‘Amr (may Allah be pleased with him) that the Messenger of Allah ﷺ said:
“Allah, Glorified and Exalted is He, bestows His special attention to His entire creation on the 15th night of Sha‘ban. He then forgives His creation except two: one who harbours enmity and the murderer.” I say: Hafiz Ibn Rajab al-Hanbali mentioned it in Lata’if al-Ma’arif and its marginal notes writer, Shaykh al-Sawas, said, “Musnad Ahmad (2/176) and its chain of transmission is sahih (authentic)”.
بخاری، مسلم اور ابوداؤد کے مطابق نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے میں بہت روزے رکھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور نبی ﷺ کی سنّت کی پیروری کرنے والے پٹاخے نہیں پھوڑا کرتے تھے۔
اب آپ پرانے دور کے ایک عالم دین جن کو سنّی حضرات امام سیوطی کہتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ لگاتے ہیں، ان کی زبانی سنیے۔
Imam Hafiz al-Suyuti also mentioned in Al-Durr al-Manthur: And Ibn Mardawayh and Ibn ‘Asakir cited: from ‘A’ishah (may Allah be pleased with her), she said:
“The Messenger of Allah ﷺ did not fast more in any month than Sha‘ban because in this month the souls of the living are written in the dead [i.e., in the list of those destined to die] to the point that a man is getting married even though his name is in the list of those to die and a man is performing Hajj even though his name is in the list of those to die.”
یعنی زندگی موت کے فیصلے شعبان کے مہینے میں ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ تھا سن سن کر سن ہوجانے والے سنّیوں کے امام سیوطی کا جسے موصوف نے حدیث کی شکل میں بیان کیا۔
شاید سنّیوں کے امام سیوطی کو کبھی قرآن کریم پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کیوں کہ قرآن اس بارے میں کچھ اور کہتا ہے۔ قرآن میں سورۃ القدر کہتی ہے کہ قدر کے تمام فیصلے لیلۃ القدر میں ہوتے ہیں۔
مطلب جعلی حدیثیں گھڑ کر پھیلانے والے منکرین قرآن نے مسلمانوں کو گمراہ کیا۔
لیکن سنّی ملّاؤں کے اندر کیڑا بھی بہت لمبا ہے۔ سورج مشرق سے نکلتا ہے مگر انہوں نے تاویلیں پیش کر کر کے اسے مغرب سے نکال لینا ہے۔ کہتے ہیں کہ نہیں جی شعبان کا پورا مہینہ نہیں بلکہ زندگی موت کے فیصلے 15 شعبان کی رات کو ہوتے ہیں۔
ایک تو سنّیوں کے اندر امام تھوک کے حساب سے ہیں۔ اور یہ لوگ کسی کے نام کے آگے امام لگا لیں تو وہ امام شیعوں کے 12 اماموں کی طرح معصوم اور ہر خطا سے مبرّا ہوجاتے ہیں۔ شیعوں کو بلاوجہ اکیلے گالیاں کھانی پڑتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان گالیوں کے کچھ حق دار یہ سنّی حضرات بھی ہیں جنہوں نے دین اسلام کے اندر ملاوٹ کر کے امّت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔
Imam Hafiz al-Mundhiri mentioned in al-Targhib wa ’l-Tarhib: from Mu’adh ibn Jabal (may Allah be pleased with him), from the Prophet ﷺ, he said:
“Allah bestows His special attention to His entire creation on the 15th night of Sha‘ban. He then forgives His entire creation except a polytheist and one who harbours enmity.”
یعنی کہ بخاری و مسلم وغیرہ کہتے ہیں کہ شعبان میں روزے رکھو۔ امام سیوطی نے فرمایا کہ شعبان کے مہینے میں زندگی موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ مگر پیٹ نہیں بھرا۔ کھینچ کر لے آئے 15 شعبان کی رات کو۔ 15 شعبان کی رات اللہ تعالیٰ ہر کسی کو بخش دیتے ہیں۔ تو کیا باقی راتوں میں نہیں بخشتے؟ اور کیا یہ پندرہ شعبان کی جو اتنی اہم رات ہے، اس کے اوپر کوئی سورۃ شعبان نازل ہوئی کہ نہیں؟ بھئی لیلۃ القدر کے اوپر سورۃ قدر ہے، تو 15 شعبان کی اتنی عظیم رات جب شیعوں کے بارہویں امام مہدی علیہ السّلام پیدا ہوئے، تو اس اعتبار سے سورۃ شعبان یا سورۃ مہدی نازل ہونی چاہیے تھی ناں؟
جاہل سنّیوں کو شیعوں نے صحیح کا چونا لگایا ہے۔
سنّیوں کے ایک اور امام کا عقیدہ دیکھیے جسے موصوف نے حدیث کے نام پر بیان کیا ہے۔ اللہ کی جھوٹوں پر لعنت ہے، خاص طور سے ان لوگوں پر جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جھوٹی حدیثیں گھڑیں اور ان لوگوں پر بھی جنہوں نے اپنی جہالت، کم عقلی اور فتنہ پردازی کی بدولت ایسی جھوٹی حدیثوں کو قلم بند کر کے قیامت تک کے انسانوں کی گمراہی کا سامان کیا۔
Imam Hafiz al-Mundhiri also mentioned in Al-Targhib wa ’l-Tarhib that Imam Ahmad narrated from ‘Abdullah ibn ‘Amr (may Allah be pleased with him) that the Messenger of Allah ﷺ said:
“Allah, Glorified and Exalted is He, bestows His special attention to His entire creation on the 15th night of Sha‘ban. He then forgives His creation except two: one who harbours enmity and the murderer.” I say: Hafiz Ibn Rajab al-Hanbali mentioned it in Lata’if al-Ma’arif and its marginal notes writer, Shaykh al-Sawas, said, “Musnad Ahmad (2/176) and its chain of transmission is sahih (authentic)”.
یعنی کہ سورۃ القدر کے مقابلے میں منافقوں نے ایک اور رات لا کر کھڑی کر دی ہے۔
اللہ تبارک تعالٰی ویسے تو کبھی بھی انسانوں کی بخشش فرماسکتا ہے۔ صحیح حدیثوں کے مطابق وہ ہر رات انسانوں سے فرماتا ہے کہ ہے کوئی جو بخشش طلب کرے۔ مگر جاہلوں اور منافقوں نے جب تک مسلمانوں کو گمراہ نہیں کردینا، ان کا مقصد حیات حاصل نہیں ہونا۔
اللہ تعالی امام بخاری و امام مسلم کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے کہ ان حضرات نے حتی المقدور جھوٹی حدیثوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ اور زیادہ تر جھوٹی حدیثیں تشیع والے نام نہاد سنّی علماء مثلاّ نام نہاد امام سیوطی وغیرہ نے پھیلائی ہیں۔ اور ایسی حدیثیں کم صحت والی حدیث کی کتابوں جن میں صحاح ستہ کی بقیہ کتابیں شامل ہیں، میں پائی جاتی ہیں۔
پندرہ شعبان وہ تاریخ ہے جب شیعوں کے بارہویں امام مہدی کی ولادت ہوئی، بقول اہل تشیع خود۔ اپنے امام کی سالگرہ کب تک چھپ چھپ کر مناتے؟ اس سالگرہ کو عام کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑیں اور تقیہ کے نام پر سنّیوں کے بھیس میں سنّیوں تک راویان حدیث بن کر پہنچادیں۔ عقل سے پیدل جاہل سنّی علماء حدیث نے اپنے کچّے اور چھوٹے دماغ کے مطابق ان پر ایمان لاتے ہوئے انہیں کتب احادیث میں جمع کر دیا۔ اور اس طرح گمراہی باقاعدہ ایک ادارے کی شکل میں آج تک دنیا کے اندر موجود ہے۔
اللہ تبارک تعالٰی ویسے تو کبھی بھی انسانوں کی بخشش فرماسکتا ہے۔ صحیح حدیثوں کے مطابق وہ ہر رات انسانوں سے فرماتا ہے کہ ہے کوئی جو بخشش طلب کرے۔ مگر جاہلوں اور منافقوں نے جب تک مسلمانوں کو گمراہ نہیں کردینا، ان کا مقصد حیات حاصل نہیں ہونا۔
اللہ تعالی امام بخاری و امام مسلم کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے کہ ان حضرات نے حتی المقدور جھوٹی حدیثوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ اور زیادہ تر جھوٹی حدیثیں تشیع والے نام نہاد سنّی علماء مثلاّ نام نہاد امام سیوطی وغیرہ نے پھیلائی ہیں۔ اور ایسی حدیثیں کم صحت والی حدیث کی کتابوں جن میں صحاح ستہ کی بقیہ کتابیں شامل ہیں، میں پائی جاتی ہیں۔
پندرہ شعبان وہ تاریخ ہے جب شیعوں کے بارہویں امام مہدی کی ولادت ہوئی، بقول اہل تشیع خود۔ اپنے امام کی سالگرہ کب تک چھپ چھپ کر مناتے؟ اس سالگرہ کو عام کرنے کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑیں اور تقیہ کے نام پر سنّیوں کے بھیس میں سنّیوں تک راویان حدیث بن کر پہنچادیں۔ عقل سے پیدل جاہل سنّی علماء حدیث نے اپنے کچّے اور چھوٹے دماغ کے مطابق ان پر ایمان لاتے ہوئے انہیں کتب احادیث میں جمع کر دیا۔ اور اس طرح گمراہی باقاعدہ ایک ادارے کی شکل میں آج تک دنیا کے اندر موجود ہے۔