battery low
Chief Minister (5k+ posts)

ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اب ایک صوبے کی بجائے خاندانی جاگیر میں تبدیل ہو رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ باقاعدہ اعلان کر دیں کہ پنجاب کا نام بدل کر ’’صوبہ مریم ونواز‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ جب ہر دوسرا منصوبہ یا تو نواز شریف کے نام سے منسوب ہو یا مریم نواز کے، تو پھر پنجاب کو اپنے نام سے ہی منسوب کر دیں۔
ابھی کل ہی خبر آئی کہ لاہور کے جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کر کے’’مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ صرف ایک نام کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک سوچ کی عکاسی ہے۔ وہ سوچ جو سمجھتی ہے کہ عوامی خدمت بھی ذاتی تشہیر کا ذریعہ ہونی چاہیے۔
نواز شریف اور مریم نواز کے نام پہلے ہی کئی پرانے اور نئے پرجیکٹس منسوب کیے جا چکے ہیں۔ وی نیوز (WeNews) کے مطابق حال ہی میں مریم نواز حکومت کی طرف سے سال 2025-26 کا 5300ارب روپے کا جو بجٹ پیش کیا گیا، اس میں 13نئے پراجیکٹس کا نام میں نواز شریف اور مریم نواز کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یعنی اصل’’خدمت‘‘تختیوں میں کی گئی ہے۔ نواز شریف کے نام پر سات اور مریم نواز کے نام پر چھ منصوبے رکھے گئے ہیں۔ گویا تختیاں گنیں تو کارکردگی خود بخود ظاہر ہو جائے۔ نواز شریف کے نام سے 72ارب روپے کے اخراجات سے پہلا سرکاری کینسر اسپتال’’نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ ‘‘بنایا جا رہا ہے۔
پھر سرگودھا میں’’نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘، قصور میں’’میاں نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی‘‘، پنجاب کے 10 ڈویژنز میں’’نواز شریف سینٹر آف ایکسی لینس فار ارلی چائلڈ ایجوکیشن‘‘، لاہور میں’’نواز شریف آئی ٹی سٹی‘‘، اور109ارب روپے کا’’نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ‘‘ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اسی طرح مریم نواز کے نام سے 9ارب کے’’مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘‘، 12 ارب کے’’مریم ہیلتھ کلینکس‘‘، 40ارب کا ’’مریم نواز راشن کارڈ پروگرام‘‘، 3ارب کا’’مریم نواز دیہی اسپتال‘‘، اور ایک موبائل ایپ’’مریم نواز دستک‘‘کا اجرا کیا گیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوامی پیسہ کسی ذاتی تشہیرکیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایک عام شہری یا مخیر فرد کسی منصوبے میں ذاتی رقم لگاتا ہے، تو وہ اس منصوبے کو اپنے یا اپنے والدین کے نام سے منسوب کر سکتا ہے۔ مگر یہ تمام منصوبے تو عوامی ٹیکس سے چل رہے ہیں تو پھر ان پر کسی سیاسی شخصیت کا نام کیوں؟
یہ تختی کلچر نیا نہیں، مگر اب اس کی شدت بے مثال ہو چکی ہے۔اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہےکہ بانی پاکستان کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بھی اپنے نام سے بدل دیا گیا۔ پہلے کم از کم یہ پردہ باقی تھا کہ عوامی منصوبے عوام کے نام پر ہوں گے۔ اب تو بے دھڑک اپنا نام کندہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ صرف نام کا معاملہ نہیں یہ’’سیاسی قبضہ‘‘ہے عوامی اداروں پر۔
تاریخ بتاتی ہے کہ تختی کے بغیر بھی لوگ یاد رہتے ہیں۔ موٹروے کا کریڈٹ لینے کیلئے نواز شریف کو کبھی تختی نہیں لگواناپڑی۔ 1122کا نام آئے تو پرویز الٰہی خود بخود یاد آجاتے ہیں۔ شہباز شریف کی میٹرو، اورنج لائن اور انڈر پاس منصوبے گواہی دیتے ہیں۔ سندھ کے اسپتالوں کا ذکر ہو تو پیپلز پارٹی کی حکومت یاد آتی ہے۔صاف ستھرا پنجاب پراجیکٹ مریم کے نام کا محتاج نہیں۔ گویا اصل کام بولتا ہے، تختی نہیں مگر افسوس یہ ہے کہ اب تختی اصل مقصد بن گئی ہے اور خدمت محض ایک ہتھیار۔’’صوبہ مریم و نواز‘‘میں منصوبہ عوام کا، پیسہ عوام کا، لیکن نام صرف باپ بیٹی کا۔ یہ ایک طرح کی سیاسی خودستائی (Self-praise) ہے، جس سے خدمت کرنے والوں کو بچنا چاہیے۔
آئین کا آرٹیکل 19(A) ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جان سکے کہ ریاستی وسائل کہاں استعمال ہو رہے ہیں۔ کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سوال کریں کہ انکے پیسوں سے بننے والے ادارے آخر ایک ہی خاندان کے نام سے کیوں منسوب کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ کسی جمہوریت کے شایانِ شان ہے؟ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو اس رجحان پر نوٹس لینا چاہیے۔ اگر آج اس عمل کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل کوئی اور حکومت آئے گی اور وہ انہی منصوبوں پر اپنا نام لگا دے گی۔ یہ ایک ایسا دروازہ کھل رہا ہے جو بند نہ کیا گیا تو جمہوری عمل محض ’’برانڈنگ کمپین‘‘بن کر رہ جائے گا۔ عوام کو بھی سوچنا ہو گا۔ ہم تختی دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر تالیاں بجاتے ہیں، لیکن معیار، کارکردگی، شفافیت کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں تختی نہیں، خدمت چاہیے؛ نعرہ نہیں، نتیجہ چاہیے۔ مریم نواز صاحبہ کو چاہیے کہ خدمت کریں، شہرت خود آ جائے گی۔ پنجاب کو تختیوں سے نہیں، تدبیر سے چلائیں ورنہ کل کو نئی آنے والی حکومتیں یہ تختیاں تو اُتار ہی دیں گی۔
Source