
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے 25 ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے ارکان کی تعداد کے حوالے سے معاملہ دلچسپ صورتحال اختیار کرگیا ہے۔
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی میں پارٹی پالیسی کے خلاف حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے 25 ارکان کو ڈی سیٹ قرار دیدیا ہے، ان ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد ان کےووٹوں سے وزیراعلی بننے والے حمزہ شہباز بھی ایوان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔
اب اگر اسمبلی میں اراکین کے نمبر گیم پر ایک نظر ڈالیں تو 371 ارکان کے اس ایوان میں حمزہ شہباز کو 197 ارکان کے ووٹ حاصل تھے جس میں سے 25 ارکان کے ووٹ کالعدم قرار پائے اور اس طرح حمزہ شہباز پر اظہار اعتماد کرنے والے ارکان کی تعداد172 رہ گئی ہے تاہم وزیراعلی کے عہدے پر برقرار رہنے کیلئے انہیں 186 ارکان کی حمایت ضروری ہے۔
پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالیں 25 ارکان کو کھونے کے بعد تحریک انصاف کے اسمبلی میں ارکان کی تعداد 158 رہ گئی ہے مگرانہیں 5 مخصوص نشستیں مل جائیں گی جس کے بعد ان کے کل ارکان کی تعداد163 ہوجائے گی۔
پی ٹی آئی کی اتحادی ق لیگ کے ایوان میں 10 ارکان ہیں جبکہ 2 آزاد اراکین ہیں، اگر یہ 12 ووٹ پی ٹی آئی کو مل جاتے ہیں تو ان کے پاس کل 175 ووٹ ہوجائیں گے جو وزیراعلی منتخب کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔
ن لیگ اور اتحادیوں کے 172 ووٹ جبکہ تحریک انصاف کے 175 ووٹوں کے ہوتے ہوئے اسمبلی میں اگلے وزیراعلی ٰ کے حوالے سے پیش گوئی کرنا فی الحال ناممکن ہے ، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وزیراعلی بننے کیلئے کسی امیدوار کو 186 ارکان کی حمایت درکار ہے یا ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت کے اعتماد کافی ہوگا ؟ جس کا جواب تاحال کسی کے پاس نہیں ہے۔