پنجاب،گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ آفس، وزرا کے دفاتر کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ

16171700c095c8e.jpg


پنجاب حکومت کے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے ہٹ کر حکومت اور ایوانوں سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، صوبائی وزرا کے دفاتر، پنجاب اسمبلی اور دیگر انتظامی دفاتر کے اخراجات میں اربوں روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔


سرکاری دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ اضافہ صوبائی وزرا کے دفاتر کے بجٹ میں کیا گیا ہے، جو 204 فیصد تک پہنچ گیا۔ گزشتہ سال یہ بجٹ 35 کروڑ روپے تھا، جسے اب بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام پر عوامی حلقوں میں شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا حکومت مالی مشکلات کے باوجود اپنے انتظامی اخراجات میں اس قدر اضافہ جواز کے ساتھ کر رہی ہے۔


اسی طرح وزیراعلیٰ آفس کے بجٹ میں بھی 19 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ رواں سال اس دفتر کے لیے بجٹ ایک ارب 46 کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی نسبت 23 کروڑ روپے زیادہ ہے۔ وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کا بجٹ بھی بڑھا دیا گیا ہے، جس میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور اب یہ 21 کروڑ 24 لاکھ روپے تک جا پہنچا ہے۔


بجٹ دستاویزات کے مطابق گورنر ہاؤس کے لیے مختص بجٹ میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پچھلے سال یہ بجٹ ایک کروڑ 61 لاکھ روپے تھا، جو بڑھا کر 15 کروڑ 37 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ یعنی گورنر ہاؤس کے لیے بجٹ میں تقریباً دس گنا اضافہ کیا گیا، جسے عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صوبے کو مالی خسارے، تعلیم و صحت کے محدود وسائل، اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔


پنجاب اسمبلی کے اخراجات میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسمبلی کا بجٹ جو گزشتہ سال 5 ارب ایک کروڑ 72 لاکھ روپے تھا، رواں سال 7 ارب 38 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف قانون ساز ادارے کے اخراجات میں 47 فیصد اضافہ کیا گیا، جو ملکی سطح پر آئندہ مالی نظم و ضبط کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔


دوسری جانب پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں شامل 41 کمشنر دفاتر کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان دفاتر کے لیے مجموعی طور پر 2 کروڑ 81 لاکھ روپے کا مزید بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

 

Back
Top