
ماہر قانون سعد رسول نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اگر حکومت کے خلاف فیصلے دے تو حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں روک دے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ججز سے پوچھ گچھ کا اختیار نہیں ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں گفتگو کرتے ہوئے سعد رسول نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں، الیکشن کمیشن کے فنڈز اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایسے ریاستی ادارے ہیں جن کے اخراجات کے معاملات فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے زمرے میں آتے ہیں یہ پبلک اکاؤنٹس کے زمرے میں نہیں آتے۔
https://twitter.com/x/status/1655619385661480960
انہوں نے مزید کہا کہ آئین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو کسی جج کے اثاثہ جات کی چھان بین کا اختیار نہیں دیتا، بہتر ہو کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپنے اراکین کے اثاثہ جات کی بھی تھوڑی چھان بین کرلی، ریاست کے تمام مالیاتی اکاؤنٹس چاہے وہ پبلک اکاؤنٹس ہوں یا فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے ہوں ان کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان آڈٹ کرتے ہیں، کسی بھی ادارے کا آڈٹ حکومت پاکستان نہیں کرتی۔
سعد رسول نے کہا کہ پی اے سی کا یہ کہنا کہ آڈیٹر جنرل کو یہ ہدایات دینا کہ ایک جج کے اثاثہ جات کا آڈٹ کرکے رپورٹ پیش کریں ، اس بات اتنی ہی قانونی اہمیت ہے کہ ہم کہیں کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز اورپی اے سی کے تمام اراکین اپنے گوشوارے ہمارے پاس جمع کروائیں۔