پنجاب اور باقی صوبوں میں پی پی پی کا جنازہ نکالنے میں بھی مین فیکٹر پی پی پی کا نواز شریف کی ناجائز حمایت کا نتیجہ اور نواز شریف کو ڈوبنے سے بچانے کا عمل دخل ہے
عوام اب سمجھدار ہو چکی
موجودہ حالات سے پہلے پاکستان میں دو پارٹیاں تھیں
ضیا الحق کے حامی ووٹرو اور پیپلز پارٹی کے حامی ووٹرو اس وقت اسٹبلشمنٹ مخالف یا پرو
اسٹبلشمنٹ ووٹر ز کا تصور نہ تھا بس ضیا کے کے حامی اور ضیا کے مخالف سب پیپلز پارٹی کے ووٹرو تھے اور بے نظیر کے دور تک یہ تقسیم قائم تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی جب زرداری پارٹی بنی تو زرداری کی
اندرونی ساز باز ہوگئی نواز کے ساتھ اور یہ ساری ساز باز اور میثاق جمہوریت کرانے میں انڈیا امریکہ اور در پردہ اسرائیل کی سازش شامل تھی یہ سازش تھی پیپلز پارٹی کو ختم کرکے کے صرف نواز شریف کو اپنا مہرہ
بنا کر کیانی نواز اینڈ کمپنی سے آئیندہ ہونی والی گریٹ گیم میں مدد کینا۔ لیکن ایک کھیل امریکہ انڈیا اور اسرائیل کھیل رہے تھے نواز کیانی اور اپنے کچھ اور پالتو کتوں کو ملا کر لیکن ایک کھیل قدرت بھی کھیل
رہی تھی اور جب زرداری نے نواز شریف کی غیر مشروط اور ناجائز حمایت اور بچاؤ شروع کردیا تو پیپلز پارٹی کے وہ ووٹرو جن کا ووٹ ہمیشہ بھٹو کو پھانسی دینے والے ضیا کے پالے ہوئے کتے نواز شریف کے خلاف جاتا تھا وہ کنفیوز ہوگئے کہ ہم تو ضیا اور
ضیا کے پالے ہوئے کتوں کے خلاف ہیُ ووٹ دیتے آئے ہیں مگر زرداری تو خود ضیا کے پالے ہوئے کتے کا پالتو کتا بن چکا ہے وہ کنفیوز ووٹر پھر عمران خان کو اپنا لیڈر سمجھ کر اس کا ساتھ دینے لگے اور
پیپلز پارٹی کا وہ اینٹی نواز شریف ووٹر اور کارکن تحریک انصاف میں شامل ہوکر اپنی نواز شریف سے دائمئ نفرت کا اظہار کرنے لگا
تحریک انصاف میں میجورٹی ووٹرو اور کارکن پیپلز پارٹی کے وہ لوگ تھے جو بھٹو کو پھانسی دینے والے ضیا اور اس کے پالتو کتے نواز شریف کے مخالف تھے جن کو زرداری نے اپنی بے وقوفی اور نواز
شریف کی ناجائز فیور کرکے پیپلز پارٹی سے متنفر کر دیا پنجاب کا وہ تمام ووٹر جو بھٹو کو پھانسی دینے والے ضیا کے پالتو کتے نواز شریف کا جانی دشمن تھا اور
اب تک ہے اس نے زرداری کے پیدا کئے ہوئے گیپ کی وجہ سے تحریک انصاف جوائن کرلی
اور جو گیپ زرداری نے اپوزیشن کی جگہ فرینڈلی اپوزیشن بن کر بنا یا اس نے پیپلز پارٹی کا پنجاب اور دوسرے صوبوں میں جنازہ نکال دیا
اب بھی اگر پیپلز پارٹی کو دوبارہ اپنی جگہ پنجاب اور باقی صوبوں میں بنانی ہے اس کو اینٹی نواز ووٹ دوبارہ پانے کے واسطے نواز کی مخالفت کرنا ہوگی نواز کو ننگا کرنا ہوگا نواز کے خلاف بولنا ہوگا تحریک
انصاف میں شامل اپنے ووٹرو کو دوبارہ پانے کے لئے
نواز شریف نے بڑی مکاری کے ساتھ زرداری کو استعمال کرکے اس کو سامنے رکھ کر اپنی گیم اسٹبلشمنٹ سے سیٹ کی سامنے پیپلز پارٹی کو رکھا اور پیپلز پارٹی اور اسٹبلشمنٹ کی محاز آرائی کرا کے اندرون خانہ اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرکی اور باہر بھاگ گیا
اس ساری کارروائی میں مولوی فضل الرحمان کو خرید کر نواز شریف نے استعمال کیا اور کر رہا ہے تین ارب روپے اب تک فضل وصول کر کا ہے پی ڈی ایم کو استعمال کرکے نواز شریف اور اس کے بندوں سے
اب اگر پیپلز پارٹی کو اپنے پنجاب اور کے پی کے کے مردے میں جان ڈالنی ہے تو بھٹو کے قاتل ضیا کے پالتو کتے اور اسکے جانشین نواز اینڈ کمپنی کے خلاف
کھل کر بولنا ہوگا ان کو عوام کے سامنے ننگا کرنا ہوگا یہی صورت ہے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بٹھو کے روائیتی ووٹرو کو دوبارہ پانے کے لئے بھٹو کے قاتل ضیا کے پالتو کتے اور باقیات کو اسکی اصلیت دکھا
پاکستا٘ن کی عوام اور قومی سلامتی کے اداروں کو متحرک ہونا ہوگا پہلے تو دہشت گردوں اور دہشت
گردی کے اڈوں کو ختم کیا لیکن اب فحاشی کے ان اڈوں کو ختم کرنا ہوگا جو اصل فساد کی جڑ ہیں
جیسے پاکستان کی عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ
دوبئی قطر اور بہت سے عرب ممالک کے حکمران تلور کا شکار کرنے اور اپنی عیاشی کے لئے پاکستا٘ن۔ آتے
ہیں اور یہُ سلسلہ شاید پچاس سال سے زیادہ سے جاری ہے
شیخ زید نے تو اپنی عیاشی کے لئے رحیم یار خان میں اپنی محل بھی بنایا ہوا ہے اور شاہی خاندان والوں
نے وہاں مقامی باشندوں کو اپنی عیاشی کے لئے بھرتی بھی کیا ہوا ہے
سارے اداروں کو معلوم ہے کہ کہ جب شاہی خاندان یا شاہ آتا تھا تو اس کو پرٹوکول کے لئے اسکے زاتی عملے کے علاوہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے پولیس
باڈی گارڈز اور آرمی آ فیسر بھی دیا جاتے تھے اور ہیں
جب شاہ یا شہزادے عیاشی اور تلور اور مقامی لڑکیوں کے شکار کے بعد واپس جاتے تھے جاتے جاتے ان
لڑکیوں میں سے اگر کوئی عورت یا لڑکی زیادہ بھا جاتی تو ان میں سے بعض کو عیاشی کے لئے اپنے ساتھ لے جاتے
تھے اور لڑکی کے ماں باپ اور بہین بھائیوں کو اتنی دولت دیتے تھے کہ معمولی مزدور سے لوگ کروڑ پتی ارب پتی بن جاتے تھے
اور سٹاف افسر کی ڈیوٹی جو عمومی طور پر پروٹوکول افسر کی ہوتی تھی بعض اپنی ہوشیاری سے شاہوں کو تلور
کے ساتھ ساتھ مقامی لڑکیاں اور عورتیں فراہم کرنے میں بھی حصہ لے کر شاہوں سے اپنی پروموشن میں
سفارش کے ساتھ ساتھ دولت میں بھی اضافے کرتا تھا
آئندہ مضمون میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیسے پاکستان کے کچھ ارب پتی خاندان جو شاہوں کے زاتی خدمت گار بننے سے پہلے کیسے معمولی مزدور تھے اور پھر شاہوں کی
خدمت کے بدلے کیسے کھرب پتی بنے اور کیسے اپنے رشتہ داروں کو جنرلز تک پروموشنز دلا کر کیسے کیسے
حکمران خاندانوں میں رشتہ داریاں بنائیں اور کیسے کیسے ملکی معاملات میں اپنی گھر کی خواتین کا استعمال کرکے ان کو شاہی محلوں میں شاہوں کی عیاشی کے لئے بھیج کر جرنیلی سڑک تک پہنچے اور کیسے کیسے ملکی سلامتی کے راز دشمن تک پہنچائے اور ملکی پالیسیوں اور خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے
اس پر ایک ہمارے دوست کتاب بھی لکھ رہے ہیں بہت جلد اس کتاب میں کچھ جرنیلوں اور شاہی خاندانوں اور حکمران خاندانوں کی ملک دشمنی کرپشن
اور خارجہ پالیسی پر اثر اندازی اور کھربوں روپے کی
کرپشن مڈل ایسٹ کے حکمرانوں کو عیاشی کرانے کے بدلے کس کس جرنیل کس کس حکمران اور کس کس بندے اور صحافی اور ادارے نے کی بہت کچھ دھماکہ خیز معلومات کے ساتھ
کس کس کی بیوی شاہوں کی لونڈی تھیُ کس کس کی بہن شاہوں کو پیش ہوئی اور بعد میں کس کی بیوی بنی
اور پھر وہ لوگ کیسے ڈان لیکس سمیت قومی سلامتی
کے معاملات پر اثر انداز ہوئے ساری معلومات عوام کو پہنچے گی اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ اس وقت کون کون غدار وطن چوروں کو چھوڑنا چاہتا ہے اور اپنے کونسے
راز کھلنے کے ڈر سے۔ اور وہ راز کیا ہے
اور بعض کس خاص خدمت کے بدلے جنرلز بنے
اس قوم کو سب معلوم ہونے جا رہا ہے انتظار فرمائیں
حمد اللہ محب ! تم نے جو پاکستان کے خلاف زبان استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو چکلا (قحبہ خانہ)کہا ہے ، اس میں سے اپنے تیس لاکھ چکلائی ، دلال ، بھڑوے ، سمگلر ، احسان فراوش ، اور آستین کے سانپ تو تواپس بلا لو ! اور ہاں، ساتھ میں یے چور ، ڈاکو اور بھگوڑا شریف خاندان بھی تحفے میں لے جا ئو