
پاکستان کے بدلتے ہوے حالات کس طرف اشارہ کر رہے ہیں پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کی عوام صرف اپنے بھائیوں کی لاشیں اٹھا رہیں ہیں انصاف کے دروازے پر انصاف کی پکار لے لاکھوں لوگ انصاف کے طلب گار ہیں لیکن ان کو انصاف دلانے والا کوئی نہیں انصاف اتنا قیمتی ہو چکا ہے کہ اب شاید غریب کی پہنچ سے بھی دور ہو چکا ہے عدالتیں بھی صرف سیاسی بساط لے بیٹھی ہوئی ہیں ایک طرف تو ایسا محسوس ہوتا ہے کے عدالتیں اپنا کام بہت زمے داری سے کرنا چاہتی ہیں لیکن جب اس کے پس منظرکو دیکھا جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف سیاست ہے سیاست کے میدان میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکے عدالتیں بھی اپنا کردار ادا کر رہیں ہیں کوئی ملا عمر کو دعوت دیتا نظر آرہا ہے کوئی میڈیا پر آکر پاکستان کی عدالتوں کو للکار رہا ہے انصاف کے پجاری اپنی ریاست کے اداروں کو مستحکم ہونے نہیں دے رہے پاکستان کی سالمیت پر روز حملے ہو رہے ہیں کبھی نیوی پر حملہ کبھی آرمی پر حملہ کبھی فضائی فوج پر حملہ کبھی انسانیت پر حملہ کبھی سیاست پر حملہ لیکن ان سب سے بےخبر ہماری حکومت جس نے تو شاید یہ سوچ لیا ہے کہ ملک کا کچھ بھی ہو لیکن ہماری حکومت نہیں جانی چاہیے پہلے تو صرف خطرہ بیرونی ہاتھوں سے تھا لیکن اب تو خطرات پاکستان کے اندر سے ہی نکلتے نظر آرہے ہیں شیخ رشید صاحب ملّا عمر کود عوت دیتے ہیں تو عمران خان وزیرستان جانے کی تیاری کرتے ہیں یہ کونسی تیاری ہے یہ کون سی سیاست ہے کے جہاں سیاسی لوگ ایسے اقدامات کر رہے ہوں جس سے ملک کی بقا کو خطرات لاھک ہو جائیں پاکستانی سرحدوں پر بڑھتے ہوے خطرات افغانستان سے دہشت گردوں کے حملے اور امریکی ڈروں حملے جس میں سینکڑوں مسلمانو کی شہادت اس سے بڑھ کر عوام کے اوپردہشت گردی کے منڈلاتے ساے روز درجنوں افراد کی ہلاکت لیکن حل کچھ نہیں سیاست دان اپنی سیاست میں لگے ہوتے ہیں روز سیاسی لوٹے اپنی سیاست کو ترازو میں تول رہے ہیں سیاسی گٹھ جوڑ بن رہے ہیں جو کل تک پرویز مشرف کے گن گاتے تھے وہ آج پیپلز پارٹی میں نظر آرہے ہیں جو کل تک نواز شریف کے گن گاتے تھے وہ آج عمران خان کی سیاست میں نظر آتے ہیں نئی سیاسی بساط نظر آ رہی ہے کراچی سے لے کر کشمیر تک خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے سیاست کے رکھوالے اپنی جائیداد کی فکر میں مصروف ہیں جاگیر دار ٹولے ملک کو محفوظ کرنے کے بجانے سیاسی اکھاڑے میں موجود ہیں عوام کی جان اور مال کی حفاظت کے بجاے اپنی سیاست کا کاروبارچالانے سے فرصت نہیں ایک طرف عدلیہ ہے تو دوسری طرف سیاست دان نورا کشتی جاری ہے دیکہتے ہیں کون جیتا ہے کون ہارتا ہے فیصل رضا عابدی نے بھی جنگ کا بیڑا اٹھا لیا ہے دیکتھے ہیں یہ کیا اثر دکھاتا ہے ان کا چلایا ہوا میزائل کس پر گرتا ہے لکین کچھ باتیں تو ہمیشہ سے غور طلب ہی رہتی ہیں کہ کیسے ممکن ہے کھ ایک طرف تو ملک کی فکر ہو دوسری طرف لٹیروں کے سردار کی حفاظت میں مشغول ہوں ایک طرف تو خون کا حساب لینے کی بات ہو دوسری طرف انہی خون بہانے والوں کی طرفداری ہو ایک طرف عدالت پر اندھا اعتماد ہو اور دوسری طرف اسی پراعتماد نہ ہو ان سب کا حل تو سیاست دانوں نے ہی نکالنا ہے لیکن ان سیاست دانوں کے پاس تو اتنی فرصت ہی نہیں کے یہ سوچ سکیں کے ملک پاکستان کو جناح کے پاکستان کو کس طرح بچانا ہے کس طرح ملک پاکستان کا وقار بنانا ہے اب وقت ہے فیصلے کرنے کا اب دہشت گردوں کے عزائم کو نیست اور نابوط کرنے کا وقت ہے اگر اب بھی ہمارے سیاستدانوں نے ہماری عدالتوں نے ہمارے فوجی بھائیوں نے سر جوڑ کر اس کا حل نہ نکالا تو کہیں ہم پاکستان کو کھو نہ دیں کہیں پاکستان کی سالمیت کو نقصان نہ پہنچ جاے یہ ملک پاکستان ہماری قربانی سے بنا ہے ہم اس کے لے اور قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن اب پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنانا ہے ہر دشمن کو منه توڑ جواب دینا ہے پاکستانی قوم اب ایک ہے اور انشا اللھ ایک قوم رہے گی سیاستدانوں کو اپنے انداز فکر کو بدلنا ہوگا تاکے ملک پاکستان امن کا گہوارہ بن سکے
Last edited by a moderator: