
پاکستان کو حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی سے ہوئی تباہی سے بچایا جا سکتا تھا لیکن سالہا سال سے ہوتی آرہی بدعنوانی اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے وسائل کے استعمال نہ کیے جانے کے باعث پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے وسائل استعمال کرنے سے ہی آئندہ ایسی کسی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ادارے بلوم برگ (ایشیا ایڈیشن) کے کالم نگار ڈیوڈ فکلنگ نے مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اپنے کالم میں لکھا ہے کہ پاکستان کو حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی سے ہوئی تباہی سے بچایا جا سکتا تھا لیکن سالہا سال سے ہوتی آرہی بدعنوانی اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے وسائل کے استعمال نہ کیے جانے کے باعث پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، وسائل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے استعمال کرنے سے ہی آئندہ ایسی کسی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ 1000 سے زائد افراد کی جان لینے والے سیلاب نے پاکستان کو 10 بلین سے ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، 1.16 بلین ڈالر پاکستان کو ملنے سے پاکستان مزید قرضوں میں ڈوب جائے گا۔ سیلاب کا مسئلہ عالمیگر ہے اور حل بھی کچھ مختلف نہیں ہیں، ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ سیلاب سے بچنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ نے مسی سپی میں پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد 1928ء کا فلڈ کنٹرول ایکٹ بنایا گیا تھا جو اس وقت امریکی حکومت کی طرف سے منظورشدہ سب سے بڑا عوامی منصوبہ تھا جس کی لاگت پاناما کینال سے زیادہ تھی جبکہ چین کے بجٹ کا بڑا حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ صحت کی دیکھ بھال یا ریلوے کی تعمیر پر خرچ رقم سے کئی گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے لکھا کہ پاکستان کا آبپاشی نظام دنیا میں سب سے بڑا ہے لیکن اس کی مرمت اور بہتری کیلئے کوئی وسائل استعمال نہیں کیے جا رہے، سکھر بیراج ڈیموں اور نہروں کا ایسا نظام ہے جس کی حالت توجہ طلب ہے، پاکستان کے چاروں صوبوں میں پانی اور فنڈ کی تقسیم پر تنازعات اور کرپشن کے باعث آج بھی پاکستان مشکلات کا شکار ہے۔ قدرتی آفات کے خطرات سے نپٹنے کیلئے پاکستان نے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ شدید بارشوں اور سیلاب سے پاکستان کی تقریباً 15 فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی ایک کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد کے دونوں جانب تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ تربیلا میں 57 فیصد گنجائش رہ گئی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میںآبادی کے لحاظ سے دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں سے صرف مصر بڑھتی آبادی کیلئے درکار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے قاصرہے۔ پاکستان کو ملنے والی رقم کو مستقبل میں موسمیاتی اثرات کے باعث قدرتی آفات سے نپٹنے کیلئے اقدامات کے بجائے صرف تباہی سے پیدا ہونے والے نقصانات کی تلافی کیلئے خرچ کیا جائے گا۔

انہوں نے لکھا کہ پاکستان کو اس وقت امداد کی ضرورت ہے۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے بچانے کے لیے امداد دینے کا امکان انتہائی کم ہے۔
سیلاب اور قدرتی آفات کو پیسے سے روکا نہیں جا سکتا، صرف معیشت کو بچایا جا سکتا ہے۔ امیر ممالک کی طرف سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے غریب ممالک کو گرانٹ دینے کا امکان اب بھی بہت کم ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/8bloombergselabbachaja.jpg