عاطف میاں سمیت دیگر بین الاقوامی ماہرین نے حال ہی میں خبردار کیا کہ پاکستان کو ایک تاریک مستقبل کا سامنا ہے، کیونکہ اس کی معیشت ایک خطرناک حال میں ہے، انہوں نے پاکستانی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ ان انتباہی اشاروں کو نظرانداز نہ کرے اور صحیح وقت پر درست اقدامات کرے، تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستان کی قیادت قوم کی معیشتی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے زیادہ تر داخلی سیاست میں مشغول ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں نے بحران کو برقرار رکھنے والی تین اہم ”قرض کے دائروں“ کی نشاندہی کی ہے، پہلا دائرہ مالیاتی دائرہ ہے، جہاں حکومت قرضوں کے سود اور غیر فنڈڈ پنشنز کی ادائیگی میں مشکلات کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ملک کو اپنے واجبات، بشمول شہری اور فوجی اخراجات پورا کرنے کے لیے مسلسل قرضے لینا پڑتے ہیں۔
دوسرا دائرہ خارجی دائرہ ہے، جو قومی تجارت کو مفلوج کر رہا ہے، پاکستان ہر ایک ڈالر کی برآمدات کے بدلے دو ڈالر کی درآمدات کرتا ہے اور ترسیلاتِ زر پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کی وجہ سے پائیدار ترقی کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔
تیسرا اور سب سے خطرناک دائرہ اعتماد کی کمزوری ہے، جیسے جیسے مایوسی بڑھتی ہے، امید افزا نوجوان ملک میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جو سرمایہ کاری کو روک دیتا ہے اور پہلے سے ہی سنگین مالی اور مالیاتی صورت حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔
چیس مین ہیٹن بینک کے سابق سربراہ خزانہ اسد رضوی نے مطالبہ کیا کہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے اور معیشت کو درست سمت میں واپس لانے کے لیے حکمت عملی پیش کریں، اسد رضوی نے میاں عاطف سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ معیشتیں جو زیادہ قرضہ جی ڈی پی تناسب کے ساتھ ہیں، اپنی صورتحال کو کس طرح سنبھالتی ہیں۔
میاں عاطف نے سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈی گول کے ایک بیان کا حوالہ دیا جو انہوں نے 1960 میں دیا تھا، سابق فرانسیسی صدر نے امریکا کو ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر حاصل شدہ فوائد پر تنقید کی تھی، چارلس ڈی گول نے اس صورتحال کو ’غیر معمولی اعزاز‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس حیثیت کی وجہ سے امریکا تجارتی خسارے چلا سکتا ہے اور کم خرچ پر قرض لے سکتا ہے، جس سےدوسرے ممالک پر غیر منصفانہ اقتصادی بوجھ پڑتا ہے۔