
پاکستان نے برآمدی شعبے کیلئے بجلی اور گیس ٹیرف کی سبسڈی ختم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ جمعرات تک ہونے کا قوی امکان ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو سگریٹ، میٹھے مشروبات، جائیداد، بیرون ملک فضائی سفر پر ڈیوٹی اور ٹیکسز میں اضافے پر رضا مندی ظاہر کی ہے، بینکوں کی آمدنی پر بھی لیوی لگے گی، عالمی مالیاتی ادارہ کسان پیکیج پر متفق ہے، معاہدے کی منظوری مارچ میں متوقع ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کے بعد مالیاتی خسارہ 400 سے 450 ارب ہوگا، مالیاتی خسارے کے اعداد و شمار پر ہم آہنگی میں ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے تکنیکی سطح کے مذاکرات پیر کو بھی جاری رہیں گے اور پھر منگل سے پالیسی سطح کے مذاکرات شروع ہوں گے۔
بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کا پتہ لگانے اور اسے طے کرنے کیلئے تعطل کے دوران آئی ایم ایف نے تقریباً 900ارب روپے کے مالی خسارے پر کام کرلیا ہے، جو جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر ہے، یہ اسٹاف لیول پر معاہدے پر عمل درآمد کے لئے اب تک کی حل طلب ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
تاہم پاکستانی حکام نے بنیادی خسارے کو کم کرنے کی تیاری کرلی ہے اور آئی ایم ایف سے سی ڈی ایم پی کے تحت کمی کے بہاؤ کو شامل کرنے کیلئے کہا ہے ، 687 ارب روپے کی ممکنہ اضافی سبسڈی کی رقم کو کم کرکے 605 ارب روپے تک کردیا گیا ہے اس طرح مالیاتی خسارہ زیادہ سے زیادہ 450 ارب روپے ہوگا۔
حکام نے فنڈ پروگرام کی بحالی کے لئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے دستخط سے متعلق آئی ایم ایف کی شرط کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے ساتھ ایسی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
فنانس ڈویژن کے اعلیٰ حکام نے پس منظر کی بات چیت میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ تکنیکی سطح پر ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان اور دورہ کرنے والے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے درمیان درست مالیاتی خسارے کا پتہ لگانے پر اب بھی اختلافات برقرار ہیں۔
مالیاتی خسارے پر جب آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کو حتمی شکل دے دی جائے گی تو ٹیکس کے اضافی اقدامات کو مضبوط کیا جائیگا جسے آئندہ منی بجٹ کے ذریعے منظر عام پر لایا جائے گا۔ سبسڈی ختم کرنے پر اتفاق اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کا ڈول آؤٹ آئی ایم ایف کے لئے بالکل ناقابل قبول ہے۔
حکومتی اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ برآمد کنندگان کی اس اسکیم میں بڑی تبدیلیاں لا کر نظر ثانی کی جائے گی۔ تاہم آئی ایم ایف نے کسان پیکیج پر اتفاق کیا، اس کے لئے بجلی کی سبسڈی، بلوچستان کے لئے 60 ہزار ٹیوب ویلز کی سبسڈی اور آزاد جموں و کشمیر کے لیے سبسڈی کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافہ یعنی 17سے بڑھا کر 18فیصد کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کا مطالبہ کررہا ہے لیکن حکومت آخری حد تک اس کیخلاف مزاحمت کر رہی ہے۔
حکومت امیر طبقات کیساتھ ساتھ درآمدات پر بھی فلڈ لیوی لگانے، بینکنگ سیکٹر کی جانب سے کمائے گئے ونڈ فال منافع پر 41فیصد کی شرح پر لیوی لگانے، سگریٹ، میٹھے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی شرح 13سے بڑھا کر 17فیصد کرنے اور بیرون ملک ہوائی سفر ودیگر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیلئے تیار ہے۔
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا کہ ایف بی آر کو 7470 ارب روپے کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں 130ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو اسٹاف کی سطح کے معاہدے پر عمل درآمد کیلئے قائل کرنے کیلئے اپنے تین آپشنز تیار کئے ہیں۔
یہ تینوں آپشنز بنیادی طور پر اخراجات میں کمی اور افراط زر کے دباؤ کو کم کرنے کے مقصد سے اضافی ٹیکس کے اقدامات کرنیکا تصور کرتے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 470ارب روپے کے سیلابی اخراجات کا استثنیٰ مانگا ہے اور فنڈ نے اس پر اتفاق کیا۔
علاوہ ازیں پاکستان اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کی ہفتے کو غیر رسمی ملاقات ہوئی جس میں آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے 1فیصد کے مالیاتی فرق کا اپنا ابتدائی تخمینہ شیئر کیا جو کہ بنیادی خسارے کو حاصل کرنے میں 884 ارب روپے کے برابر ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/imfhhssiahahss.jpg