
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اگرچہ یہ شرح بہت زیادہ نہیں ہے مگرگزشتہ کچھ برسوں کی نسبت اس میں اضافہ پایا گیا ہے۔ اس حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں سال 2012 ء میں تقریبا 657 جوڑے ایک دوسرے سے الگ ہوئے حالانکہ 2002 ء میںیہ تعداد صرف 208 تھی۔ برطانوی رپورٹ میں عورت فائونڈیشن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس 1636 قتل غیرت کے نام پرہوئے۔ جس میں اکثریت خواتین کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق خلع لینے والی بیشتر خواتین کا تعلق پڑھی لکھی اور متوسط طبقے سے ہوتا ہے جو اپنے حقوق پہچانتی ہیں۔

گھریلو ناانصافیوں اور ناچاقی خلع کا سبب بنتی ہے ۔ اکثر خواتین نوکری پیشہ ہوتی ہیں جو وکلا کی بھاری فیسیں بھی ادا کرلیتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح بہت کم ہے۔ دوسرییہ کہ دیہی خواتین خاوند سے اختلافات کے باوجود طلاق نہیں لے سکتی اس کی وجہ آگاہی کی کمی اور وکلا کی فیس ادا نہ کرسکناہے۔ جماعت اسلامی کی رہنما شنفیرہ جمال کا کہنا ہے اللہ طلاق کو ناپسند کرتا ہے تاہم اللہ نے کسی مردکو بیوی پر تشدد کی اجازت بھی نہیں دی ہے۔ رپورٹ میں طالبان کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جن کے مطابق معاشرے میں خواتین کی طلاق کواچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
express.pk