- Disable Ads
- No
- Disable no follow links
- Yes

جائیداد میں خواتین کے وراثتی حقوق کا ایک مختصر جائزہ
شریعت اور پاکستانی قوانین دونوں ہی خواتین کے جائیداد میں وراثتی حصے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ملکی قوانین کے مطابق کوئی بھی خاتون اپنے والد اور شوہر کے نام جائیداد یا پراپرٹی میں ایک مخصوص حصہ رکھتی ہے، جبکہ اس حوالے سے پاکستان میں رائج قوانین کی حکم عدولی پر 5 سے 10 سال کی قید اور جرمانے کی سزا تفویض کی گئی ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن یہاں آج بھی خواتین کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان واقعات میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، سماجی اور معاشی ناانصافیاں اور سب سے بڑھ کر جائیداد میں خواتین کو حصہ نہ دینے کے حوالے سے ظلم و جبر کے واقعات نمایاں ہیں۔
جائیداد کے معاملے میں خواتین کی حق تلفی، کچھ اعداد و شمار
جائیداد میں حصہ نہ دینے کے حوالے سے خواتین کی حق تلفی کے واقعات چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ انتہائی محتاط اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی سول کورٹس، خواتین محتسب اور اعلیٰ عدلیہ میں مجموعی طور پر 69 ہزار سے زائد ایسے مقدمات زیر التواء ہیں جو براہ راست خواتین کے جائیداد میں حصے اور ان کے ساتھ وراثتی حقوق میں ناانصافی سے متعلق ہیں۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی خواتین کو ڈرا دھمکا کر ان کے وراثتی حق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور ان میں سے اکثریت یا تو معاشرتی ناانصافیوں کی وجہ سے خاموش ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور یا پھر جو خواتین اپنے حق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی بھی ہیں وہ کمزور عدالتی نظام کے باعث عدالتوں کے چکر لگاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے وراثتی حقوق، قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں خواتین کے جائیداد میں حصے اور وراثتی حقوق سے متعلق جو قوانین موجود ہیں انہیں انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020 اور نفاذ ملکیتی حقوق نسواں (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کوئی بھی خاتون جسے جائیداد میں اپنے قانونی حصے یا پھر وراثتی حقوق کے حصول میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا ہو تو وہ ان قوانین کا سہارا لیتے ہوئے اپنے قانونی حق کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔
خواتین کے وراثتی حقوق، شریعت کی روشنی میں
شرعی قوانین کے مطابق ایک عورت بطور ماں، بہن، بیٹی، بیوی، نواسی اور پوتی جائیداد میں وراثتی حصے کا اپنا حق محفوظ رکھتی ہے۔ شریعت کے مطابق ایک سے زائد بیٹیوں کی صورت میں خواتین اپنے والد کی جانب سے وراثت میں دو تہائی ترکہ رکھتی ہیں جبکہ کسی شخص کی اگر ایک بیٹی ہو تو وہ شریعت کے مطابق وراثت میں اپنے بھائی کے مقابلے میں نصف ترکہ کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
اسی طرح زوجہ کے حوالے سے بھی شریعت اسے اپنے شوہر کی وراثت میں حصہ لینے کا حق دیتی ہے۔ اگر کسی شخص کی اولاد نہ ہو تو وفات کے بعد اس کی زوجہ کو کُل وراثت کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا ہاں اگر شوہر اپنی زندگی میں تمام وراثت اپنی زوجہ کے نام منتقل کر دے تو شوہر کی وفات کے بعد وہ ساری جائیداد کے ملکیتی حقوق لے سکتی ہے۔
مُلکی قوانین کے مطابق خواتین کے وراثتی حقوق کا تحفظ
مُلکی قوانین میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کچھ ترامیم کی گئی ہیں جن کے بعد اب خواتین اپنے وراثتی حصے کے حصول میں بلاتاخیر انصاف حاصل کر سکتی ہیں۔
نفاذ ملکیتی حقوق نسواں (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے تحت اگر کسی خاتون کو اس کے وراثتی حق سے محروم کیا جا رہا ہو تو وہ خاتون مذکورہ قانون کے تحت خواتین محتسب سے رابطہ کر سکتی ہے جہاں محتسب کا ادارہ متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے 15 روز کے اندر تفصیلی رپورٹ طلب کر سکتا ہے جس کے بعد خواتین محتسب کا ادارہ تفصیلی جائزے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد 60 روز میں اپنا فیصلہ سنانے کا پابند ہے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ کم علمی کی وجہ سے خواتین سول کورٹس سے رجوع کرنے کی وجہ سے سالہا سال مقدمات کی پیروی کرتے اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں لیکن اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ خواتین محتسب کے قیام کے بعد یہ ادارہ سول کورٹ میں زیر التواء مقدمے کی کاروائی رکواتے ہوئے خود 60 روز میں فیصلہ سنا سکتی ہے جو بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے۔
عدالت عظمیٰ کے ایک حالیہ فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اپنے والدین کی طرف سے وراثت میں چھوڑے ہوئے حصے میں وراثت کا دعویٰ اپنی زندگی میں ہی کر سکتی ہے۔
ملک بھر میں پراپرٹی کی خرید و فروخت، کرایہ داری یا سرمایہ کاری کیلئے آپ پاکستان کی پہلی آن لائن ریئل اسٹیٹ مارکیٹ پلیس گرانہ ڈاٹ کام وزٹ کیجئے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/warasat%20haqoq.jpg