Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
دو تین روز پہلے عاصمہ شیرازی صاحبہ کے شو میں شریک تھا۔ بات پاپولر لیڈر شپ کی طرف نکل گئی۔ وہاں موجود ایک مہمان کا خیال تھا کہ عمران خان اس وقت سب سے پاپولر لیڈر ہیں‘ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ لیکن وہ اپنی قابلیت یا کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کی مقتدرہ مخالف سوچ کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں ورنہ جس کا رول ماڈل افغان طالبان اور ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقے کا عثمان بزدار ہو‘ اس کا وژن کتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ جس سے کوئی بندہ انہیں اپنا مسیحا سمجھ لے۔
مقتدرہ کی سیاست میں مسلسل مداخلت کی وجہ سے لوگوں میں غصہ بڑھا تو عمران خان نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا‘ ورنہ جب خان کو اقتدار سے نکالا گیا تھا تو انہوں نے کسی ٹی وی شو میں ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کیا تھا کہ وہ ہٹ گئے ورنہ انکے پاس تو عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہ تھا اور شہباز شریف اور زرداری صاحب نے ان کا سب بوجھ اپنے سر لے لیا تھا۔ عمران خان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے دور میں جو سترہ‘ اٹھارہ ضمنی الیکشن ہوئے‘ ماسوائے ایک الیکشن کے وہ سبھی ہارے تھے۔ یہ دراصل (ن)لیگ‘ پیپلز پارٹی اور مقتدرہ کی نالائقی تھی جسے خان نے کیش کرایا۔میں نے شو میں کہا کہ پاپولر لیڈر شپ تیسری دنیا کے ممالک میں خطرناک سیاسی آمریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تقریباً ہر دوسرا پاپولر لیڈر اپنے ملک اور قوم کیلئے تباہی لاتا ہے۔ اس پر ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر میرے خلاف مہم چلائی گئی کہ کیسا بیوقوف ہے جو پاپولر لیڈر شپ کے خلاف ہے۔ پاپولر لیڈرشپ تو قوموں کیلئے نعمت ہوتی ہے۔
ہمارے اکثر دانشور یا صحافیوں نے (چند ایک کو چھوڑ کر) ماسٹرز یا بی اے کی درسی کتب کے علاوہ کبھی کچھ نہیں پڑھا ہوتا۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ان باتوں کو سراہنے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں کہ پاپولرشپ کیسے اُبھرتی ہے اور کیسے ملکوں کو برباد کر جاتی ہے۔ کتاب نہ پڑھنے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ آپ کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انسانی تاریخ میں کب کب پاپولر لیڈرز ابھرے‘ پوری قوم کو دیوانہ کیا اور پھر ایسا بھی ہوا کہ اسی قوم نے اپنے اسی پاپولر لیڈر کو آگ میں زندہ بھی جلایا جسکی مثال سولہویں صدی کا کردار جان آف آرک ہے۔ میرا کہنا تھا کہ اس موضوع پر دنیا بھر میں کافی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ دنیا میں جمہوریت ان پاپولر لیڈرز کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہے۔
اگر ہم پاکستان سے شروع کریں تو بھٹو صاحب پہلے پاپولر لیڈرتھے۔ ان کے دور میں جہاں اچھے کام ہوئے وہیں جمہوریت کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ بھٹو دور میں بلوچ پشتون قوم پرست اور اپوزیشن سب جیل میں تھے۔ ان کا کوئی ہاتھ نہ روک سکا کیونکہ وہ پالوپر تھے۔ عوام‘ عدالتیں‘ ادارے ان کا ہر غلط فیصلہ تسلیم کر رہے تھے۔ بھٹو دور میں میڈیا اور اپوزیشن کیساتھ بدترین سلوک کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس پاپولر وزیراعظم نے ساتویں نمبر والا بندہ آرمی چیف لگایا جس نے مارشل لاء لگا کر اسے ہی پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس پاپولر لیڈر کا ایک غلط فیصلہ ملک کو دس سال کیلئے جمہوریت سے دور لے گیا۔دوسرے پاپولر لیڈر نواز شریف تھے جنہوں نے 1997ء میں دو تہائی اکثریت لی اور ساتھ ہی ایک ایسا بل تیار کرا لائے جسکے تحت انہیں امیرالمومنین قرار دیا جانا تھا‘ اور جو اس امیر پر تنقید کرتا اس کو سزا ملتی۔
یہ پاپولر لیڈر تھا جو الیکٹ تو ووٹ سے ہوا لیکن بننا امیرالمومنین چاہتا تھا۔ اس پاپولر لیڈر نے بھی بھٹو کی طرح ایک ایسا آرمی چیف چنا جو ان کے مطابق انکے اقتدار کیلئے خطرہ نہیں تھا‘ اور وہ اسکی موجودگی میں بآسانی امیر المومنین کا درجہ حاصل کر سکتے تھے۔ چونکہ انہیں لوگوں نے دو تہائی اکثریت دی تھی لہٰذا اب وہ جو چاہے کر سکتے تھے۔ جس کا نتیجہ بارہ اکتوبر کی شکل میں نکلا اور پھر نو سال ہم نے جنرل مشرف کو بھگتا۔ یہی پاپولر لیڈر جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنا تو چار سو دن ملک سے باہر دوروں پر رہا۔ ایک سو بیس بائیس بیرونی دورے‘ چھ چھ ماہ پارلیمنٹ اجلاس میں شریک نہ ہوئے‘ آٹھ ماہ کابینہ اجلاس نہ بلایا۔ ایک سال سینیٹ نہ گئے۔ یہ تھا ہمارے پاپولر لیڈر کا جمہوریت کا وژن۔
تیسرے پاپولر لیڈر عمران خان تھے۔ ان کے اندر بھی بھٹو والی روح تھی۔ وہ بہت کچھ اس ملک اور قوم کیلئے کر سکتے تھے لیکن انہوں نے بھی بھٹو والا راستہ چنا۔ خان نے بھی اپنے دور میں اپوزیشن کو جیل میں ڈالا۔ وہ پاکستانی وزیراعظم کی جمہوری پاورز سے خوش نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں سعودی عرب‘ روس اور چینی قیادت جیسی پاورز حاصل ہوں تاکہ مخالفوں کو پھانسیاں لگا سکیں۔ اُس وقت کے آرمی چیف نے مدتِ ملازمت میں توسیع لینی تھی۔ یوں عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا اور جمہوریت کا بستر گول ہوا۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ملک سنبھال لیا جبکہ خان مقبولیت کے زعم میں عثمان بزدار‘ محمود خان اور گجر گینگ کی ماردھاڑ کا دفاع کرتے رہے۔ اس پاپولر وزیراعظم نے سعودی عرب‘ امریکہ‘ چین‘ یورپ اور برطانیہ سے لڑائی مول لی۔ دوست ممالک کو ناراض کیا۔ عثمان بزدار جیسے بندوں کوعوام پر مسلط کیا۔ اسمبلیاں توڑیں کہ میں مزید پاپولر ہو سکوں۔ لوگوں کو خوش کرنے اور مقبولیت کے چکر میں نو مئی کرایا اور مقتدرہ کو موقع دیا کہ وہ سب کچھ لپیٹ دے۔ آج اگر مقتدرہ حاوی ہوگئی ہے تو اس میں خان کا بڑا ہاتھ ہے‘ ورنہ نو مئی سے پہلے مقتدرہ بری طرح بیک فٹ پر تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو‘ نواز شریف‘ عمران خان‘ سب پاپولر تھے لیکن ان سبھی نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے مقتدرہ کو اپنے احمقانہ فیصلوں سے طاقت دلوائی۔ تینوں نے اپنی پارٹیوں پر آمریت مسلط کی۔ کسی کو جرأت نہ تھی وہ ان سے سوال کرتا کیونکہ یہ سب پاپولر پارٹی سربراہ تھے۔ یہ سب تاحیات پارٹی صدر بنے۔ پارٹی پر بھی قابض‘ صدارت اور وزارتِ عظمی پر بھی یہ قابض۔ یہ تھی ان سب کی جمہوریت‘ مقبولیت کے زور پر ان سب نے میڈیا اور عدالتوں کو کنٹرول کیا جو جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا۔
پارلیمنٹ کی نواز شریف اور عمران خان کے دور میں ٹکے کی اوقات نہ تھی۔ دونوں چھ چھ ماہ تک پارلیمنٹ نہ گئے کیونکہ پاپولر تھے اور پارٹی کے اندر سے کس کی مجال تھی کہ ان سے سوال پوچھ سکے کیونکہ یہ سب سیاسی آمر بن چکے تھے اور جو پارٹی میں آواز بلند کرتا اگلے دن اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا تھا۔ یہ تینوں اگر اپنی مقبولیت کے جنون پر قابو رکھتے تو پاکستان آج جمہوری طور پر بہت آگے ہوتا۔ پاپولر لیڈر ایک سٹیج پر پہنچ کر کلٹ؍ دیوتا؍ بھگوان بن جاتا ہے اور اسکے پیروکار اسے پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور پھر اس بندے کے کسی فیصلے پر تنقید کرنا تو دور‘ آپ اسکا نام تک نہیں لے سکتے اور یہی جمہوریت کی موت ہوتی ہے۔ ہٹلر بھی پاپولر تھا۔ اس نے جرمنی کو جنگ عظیم دوم میں مروا دیا۔ جاپان کا بادشاہ ہیرو ہوٹو بھی پاپولر تھا۔ امریکی اڈے پرل ہاربر پر حملہ بھی اس کا پاپولر فیصلہ تھا۔ جواباً دو بموں میں دو جاپانی شہر تباہ ہو گئے۔ یوکرین کا زیلنسکی بھی ہینڈسم اور پاپولر تھا۔ جنگ میں لاکھوں لوگ مروا دیے‘ پورا ملک تباہ کر دیا۔ نریندر مودی بھی بھارت میں بہت پاپولر ہے۔ پورے بھارتی معاشرے کو ہندو مسلم نفرت میں بانٹ کر‘ آگ لگا کر اب پوری دنیا کو نیوکلیئر جنگ کے دہانے تک لے آیا ہے۔ میں انسانی تاریخ سے بہت ساری مثالیں دے سکتا ہوں جب پاپولر لیڈران تباہی و بربادی لائے محض اس لیے کہ وہ پاپولر رہیں نہ کہ sane & correct۔
نپولین بھی فرانس میں بہت پاپولر ہوگیا تھا۔ اس نے بھی پاپولر فیصلہ کیا کہ فرانسیسی عوام اسے کندھوں پر بٹھائیں گے۔ وہ فرانس کا نہیں یورپ کا شہنشاہ بنے گا۔ پورے یورپ کو آگ لگاتے انگلینڈ کا رُخ کیا۔ واٹر لُو پر شکست ہوئی۔ لاکھوں لوگ اس پاپولر نپولین نے مروا دیے۔ گرفتار ہو کر برطانیہ کا قیدی بن کر ایک جزیرے پر آخری عمر گزاری۔ اس کے آخری برسوں کی کہانی پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ فرانس کے پاپولر لیڈر نپولین کا کیا حشر ہوا اور کن حالات میں وہ مرا۔

پاپولر لیڈرز خطرناک کیوں؟
رؤف کلاسرا کا کالمـ - پاپولر لیڈرز خطرناک کیوں؟ 2025-06-06 کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا۔ پڑھنے کے لیے کلک کریں
