
جب سے تحریک عدم اعتماد آئی ہے، ق لیگ کی حد سے زیادہ بلیک میلنگ بڑھ گئی ہے۔ ق لیگ والے کبھی حکومتی لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں تو کبھی اپوزیشن کے رہنماؤں سے اور ایک بہتر موقع کی تلاش میں ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ ق کی 5 سیٹیں ہیں اور انکے پاس وفاق میں وزارتیں، صوبائی اسمبلی میں اسپیکرشپ، دو صوبائی وزراء بھی انکے ہیں۔ 4اضلاع میں بیوروکریسی اور پولیس افسران انکی مرضی سے لگتے ہیں، ترقیاتی فنڈز بھی انہیں دھڑادھڑ ملے ہیں۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ ق کی 5 سیٹیں بھی تحریک انصاف کی مرہون منت ہیں، الیکشن 2018 میں تحریک انصاف نے ان 5 سیٹوں پر ق لیگ کی حمایت کی تھی اور اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے جس کی وجہ سے ق لیگ یہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
مسلم لیگ ق سے وزراء ملتے ہیں تو وہ انہیں حمایت کی یقین دہانی کرادیتی ہے لیکن جیسے ہی میڈیا پر خبریں چلتی ہیں کہ ق لیگ نے حکومت کو یقین دہانی کرادی تو ق لیگ طارق بشیرچیمہ کو میڈیا پر بھیج دیتی ہے جس کا کام یہ کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے ابھی تک فیصلہ نہیں کی۔
طارق بشیر چیمہ نہ صرف تردیدیں جاری کرتے ہیں بلکہ ق لیگ کی حمایت کی خبریں دینے والوں کی خوب مٹی پلید کرتے ہیں اور طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گڑتے ہیں۔کبھی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فون کال نہیں آئی، کبھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں ن لیگ کی مقبولیت بڑھ گئی۔
طارق بشیر چیمہ کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ الیکشن 2018 میں تحریک انصاف نے ایک سیٹ پر ق لیگ کے طارق بشیرچیمہ کی حمایت کی اور اسکے بدلے میں طارق بشیرچیمہ کو دوسری بہاولپور کی سیٹ پر تحریک انصاف کے نعیم الدین وڑائچ کی حمایت کرنے کا کہا لیکن طارق بشیر چیمہ نے بجائے نعیم الدین وڑائچ کی حمایت کرنے کے خود اس سیٹ پر کھڑے ہوگئے، خود تیسرے نمبر پر آئے اور نعیم الدین وڑائچ کو ہرواکر سیٹ ن لیگ کے پلڑے میں ڈال دی۔
طارق بشیر چیمہ نے یہ کام صرف الیکشن 2018 میں ہی نہیں کیا۔ 2013 میں بھی طارق بشیرچیمہ نے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جس کے بدلے اسے دوسرے حلقے سے نعیم الدین وڑائچ کو سپورٹ کرنا تھا لیکن عین وقت پر اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے سےانکار کردیا اور دوسرے حلقے کی سیٹ نہ صرف خود ہارے بلکہ نعیم الدین وڑائچ کو بھی ہرادیا۔
ق لیگ 2 وزارتوں، پنجاب اسمبلی کی اسپیکرشپ، 2 صوبائی وزراتوں اور 4 اضلاع میں خوش نہیں ہے بلکہ وہ 10 سیٹوں پر وزیراعلیٰ بھی اپنالانا چاہتی ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ق لیگ کا مطالبہ ہے کہ عثمان بزدار کو ہٹاکر وزیراعلیٰ بنایا جائے اور ساری بات یہی اٹکی ہوئی ہے۔
دوسری طرف ایم کیوایم بھی 7 سیٹوں پر حکومت کو بلیک میل کررہی ہے، وہ بھی کبھی اپوزیشن سے کبھی حکومت سے مل رہی ہے، سخت بیان دے رہی ہے۔
آخر میں عمران خان کو چاہئے کہ وہ ق لیگ اور ایم کیوایم کو اسکے حال پر چھوڑدے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے دے، تحریک عدم اعتمادناکام ہویا کامیاب ہو، عمران خان دونوں صورتوں میں فائدے میں ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/black1m11i.jpg
Last edited by a moderator: