Annie
Moderator
وقت کا دھارا
✮✮✮
اللہ سب کے والدین کو تندرست اور سلامت رکھے انکی اولاد پر انکا سایہ قائم رکھے اور جنکے والدین اس دنیا میں نہیں انھیں جنت میں اعلی مقام عطا کرے اور ہمیں ہر حال میں والدین کا فرمانبردار اور حق ادا کرنے والا بناۓ آمی
دن بھر کی سخت محنت مزدوری کے بعد تو کرم داد شام کو گھر لوٹا تھا لیکن اسکی بیوی ہر روز کی طرح منہ بسورے اسکے ہی انتظار میں ہوتی تھی پانی پینے اور بیٹھنے کی دیر ہے وہ پھر گلے شکوے شروع کر دیتی تھی
سارا دن تمہارا باپ چارپائی پر پڑا کھانستا رہتا ہے میں اپنے دودھ پیتے ننھے بچے کو سنبھالوں یا اس بڈھے کو ؟ میری بھی کیا زندگی ہے سارا دن کام کروں تم دن باہر گذرتے ہو میں بچے کے ساتھ تمھارے بوڑھے باپ کو بھی دیکھوں اسے وقت پر روٹی چاہئیے تو کبھی پانی مانگتا ہے . ادھر بچہ روتا ہے . میں کیا کروں . اسے لے جا کہیں . یہ نہیں مرنے والا . گاؤں کی پہاڑی پر لے جا کر اسکو نیچے پھینک آ- مجھ سے نہیں اور سمبھالنے ہوتا
کرم داد بیوی کی باتیں سن سن کر بہت ہی تنگ تھا آے دن یہی شور شرابہ رہتا .. اسکی ماں تو کب کی فوت ہو چکی تھی جبکے اسکا بوڑھا باپ چارپائی پر کھانس رہا ہوتا یا تھوکتا تو کبھی زورزور سے آوازیں دے کر خود سے ہی باتیں کرتا - کرم داد جب بھی محنت مزدوری کے بعد اپنے گھر آتا تو آگے سے روزانہ بیوی کی چخ چخ سننا پڑتی
ایسے ہی ایک شام کو وہ گھر آیا تو اسکا مزاج پہلے ہی کافی بیزار اور تلخ تھا آتے ساتھ ہی اسکی بیوی پھر اپنے کوسنے شروع کر بیٹھی اور اس سے اسرار کر رہی تھی اس بڈھے کو لے جاؤ اور پہاڑی کے نیچے پھینک آؤ - غصے اور جھنجھلاہٹ میں کرم داد نے بے بسی کے ساتھ اپنے ضعیف اور نحیف باپ کو اپنی توانا بازوؤں میں اٹھایا اور گاؤں کی بلند پہاڑی پر جا پہنچا - آج وہ اپنے باپ کی پہاڑی سے نیچے پھینک کر یہ روزانہ کی درد سری ختم کرنا چاہتا تھا
پہاڑی کی بلندی پر پہنچ کر کرم داد نے نیچے دیکھا جہاں انتہائی پتھریلی اور گہری کھائیاں تھیں - اسکی بازوؤں میں سمٹے ہوۓ ضعیف باپ نے بھی نیچے دیکھا اور زور سے ہنسا اور ہنستا گیا - پھر ایکدم چپ ہوا اور پھر بے اختیار رو پڑا - کرم داد نے پوچھا
"ابا کیا ہوا آپ پہلے ہنسے پھر رو پڑے آخر کیوں ؟"
بوڑھے باپ نے کہا "اس بات کو چھوڑو جو کرنے آیے ہو وہ کرو
بیٹے نے باپ کو وہیں چٹان پر بٹھاتے ہوۓ کہا "نہیں آپ بتائیں آپ پہلے ہنسے پھر روۓ کیوں ؟
سارا دن تمہارا باپ چارپائی پر پڑا کھانستا رہتا ہے میں اپنے دودھ پیتے ننھے بچے کو سنبھالوں یا اس بڈھے کو ؟ میری بھی کیا زندگی ہے سارا دن کام کروں تم دن باہر گذرتے ہو میں بچے کے ساتھ تمھارے بوڑھے باپ کو بھی دیکھوں اسے وقت پر روٹی چاہئیے تو کبھی پانی مانگتا ہے . ادھر بچہ روتا ہے . میں کیا کروں . اسے لے جا کہیں . یہ نہیں مرنے والا . گاؤں کی پہاڑی پر لے جا کر اسکو نیچے پھینک آ- مجھ سے نہیں اور سمبھالنے ہوتا
کرم داد بیوی کی باتیں سن سن کر بہت ہی تنگ تھا آے دن یہی شور شرابہ رہتا .. اسکی ماں تو کب کی فوت ہو چکی تھی جبکے اسکا بوڑھا باپ چارپائی پر کھانس رہا ہوتا یا تھوکتا تو کبھی زورزور سے آوازیں دے کر خود سے ہی باتیں کرتا - کرم داد جب بھی محنت مزدوری کے بعد اپنے گھر آتا تو آگے سے روزانہ بیوی کی چخ چخ سننا پڑتی
ایسے ہی ایک شام کو وہ گھر آیا تو اسکا مزاج پہلے ہی کافی بیزار اور تلخ تھا آتے ساتھ ہی اسکی بیوی پھر اپنے کوسنے شروع کر بیٹھی اور اس سے اسرار کر رہی تھی اس بڈھے کو لے جاؤ اور پہاڑی کے نیچے پھینک آؤ - غصے اور جھنجھلاہٹ میں کرم داد نے بے بسی کے ساتھ اپنے ضعیف اور نحیف باپ کو اپنی توانا بازوؤں میں اٹھایا اور گاؤں کی بلند پہاڑی پر جا پہنچا - آج وہ اپنے باپ کی پہاڑی سے نیچے پھینک کر یہ روزانہ کی درد سری ختم کرنا چاہتا تھا
پہاڑی کی بلندی پر پہنچ کر کرم داد نے نیچے دیکھا جہاں انتہائی پتھریلی اور گہری کھائیاں تھیں - اسکی بازوؤں میں سمٹے ہوۓ ضعیف باپ نے بھی نیچے دیکھا اور زور سے ہنسا اور ہنستا گیا - پھر ایکدم چپ ہوا اور پھر بے اختیار رو پڑا - کرم داد نے پوچھا
"ابا کیا ہوا آپ پہلے ہنسے پھر رو پڑے آخر کیوں ؟"
بوڑھے باپ نے کہا "اس بات کو چھوڑو جو کرنے آیے ہو وہ کرو
بیٹے نے باپ کو وہیں چٹان پر بٹھاتے ہوۓ کہا "نہیں آپ بتائیں آپ پہلے ہنسے پھر روۓ کیوں ؟
✮✮✮
بوڑھے باپ نے جواب دیا .."بیٹا میں ہنسا اس لیے تھا کے آج سے کئی سال پہلے میں بھی تمھاری طرح جوان اور توانا تھا تم چھوٹے سے تھے تمھاری ماں ہر وقت مجھے تمھارے دادا کی وجہ سے تنگ کرتی تھی اور کہتی تھی اسکو پہاڑی کے نیچے پھینک آؤ کے یہ خود سے نہیں مرنے والا ہر وقت کھانستا اور تھوکتا ہے - میں بھی ایک دن بہت تنگ پڑا اور تمہارے دادا کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر لایا اور اسی پہاڑی کے نیچے پھینک گیا تھا - پھر میں لوٹ کر کبھی اس پہاڑی پر نہیں آیا - لیکن آج وقت کا دھارا مجھے تمہارے ہاتھوں واپس اسی جگہ لے آیا ہے ایسا ہی وقت تها، یہی پہاڑی تھی یہی سما ں تھا یہی مقام تھا آج جب اپنا انجام دیکھا ہے تو تمہارا دادا یاد آیے اور خود پر بہت ہنسی آئ کے یہ تو میرے ساتھ ہونا ہی تھا میں اس کے ہی قابل تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی " یہ کہہ کر بوڑھا باپ خاموش ہوگیا
کرم داد نے استفسار کیا " لیکن آپ روۓ کیوں تھے ؟
بوڑھے نے کہا " میں رویا اس وجہ سے تھا کے کل کو تمہارا بیٹا بھی تمہیں یہیں اسی پہاڑی سے نیچے پھینکے گا اور میرے لال تم میرے لخت جگر ہو میں نہیں چاہتا کے تمھارے ساتھ ایسا ہو یہ سوچ کر میں رو پڑا
پاب کی باتیں سن کر کرم داد نے اٹل فیصلہ کیا اوراپنے بوڑھے باپ کو اٹھا کر وہ واپس گھر پہنچا باپ کو چارپائی پر بٹھاتے ہوۓ اس نے بیوی کو دوٹوک لفظوں میں کہا کے اگر تمہیں رہنا ہے تو رہو میرا باپ یہیں رہے گا تمہیں تکلیف ہے تو دروازہ کھلا ہے چلتی بنو لیکن میں اپنے باپ کی جان نہیں لوں گا
یہ فیصلہ سنانے کے بعد وہ اٹھا کٹورے میں پانی ڈالا اوربوڑھے باپ کو اسکی چارپائی پر بیٹھ کر اسے پلانے لگا کے آج کے بعد میں خود آپکا خیال رکھوں گا
کرم داد نے استفسار کیا " لیکن آپ روۓ کیوں تھے ؟
بوڑھے نے کہا " میں رویا اس وجہ سے تھا کے کل کو تمہارا بیٹا بھی تمہیں یہیں اسی پہاڑی سے نیچے پھینکے گا اور میرے لال تم میرے لخت جگر ہو میں نہیں چاہتا کے تمھارے ساتھ ایسا ہو یہ سوچ کر میں رو پڑا
پاب کی باتیں سن کر کرم داد نے اٹل فیصلہ کیا اوراپنے بوڑھے باپ کو اٹھا کر وہ واپس گھر پہنچا باپ کو چارپائی پر بٹھاتے ہوۓ اس نے بیوی کو دوٹوک لفظوں میں کہا کے اگر تمہیں رہنا ہے تو رہو میرا باپ یہیں رہے گا تمہیں تکلیف ہے تو دروازہ کھلا ہے چلتی بنو لیکن میں اپنے باپ کی جان نہیں لوں گا
یہ فیصلہ سنانے کے بعد وہ اٹھا کٹورے میں پانی ڈالا اوربوڑھے باپ کو اسکی چارپائی پر بیٹھ کر اسے پلانے لگا کے آج کے بعد میں خود آپکا خیال رکھوں گا
......✮✮✮...
اللہ سب کے والدین کو تندرست اور سلامت رکھے انکی اولاد پر انکا سایہ قائم رکھے اور جنکے والدین اس دنیا میں نہیں انھیں جنت میں اعلی مقام عطا کرے اور ہمیں ہر حال میں والدین کا فرمانبردار اور حق ادا کرنے والا بناۓ آمی
Last edited by a moderator: