اگلا وزیر اعظم بلاول؟
جب مقصد دین سے بیزری ہو، یا اسلام کی مخالفت کرنامقصود ہو،اور تو سیکولرزم کا نعرہ لگا کربلاول زرداری فرماتے ہیں کہ ملک میں عیسائی یہودی یا ہندو کو بھی وزیر اعظم بننے کی اجازت ہونی چاہئے، مگر جب اپنی باری آتی ہے، تو پھر ہر قسم کا سیکولرزم بھول جاتا ہے، اور اپنی خواہش کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ اگلا وزیر اعظم میں بنوں گا۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ(کسی کو صحیح لگے یا غلط مگر) پاکستان کے آئین کی رو سے کوئی غیر مسلم صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا، مگر پی پی پی کے دستور میں تو ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ لہذا اگر بلاول کو واقعی اقلیتوں کا اتنا خیال ہے تو کیوں نہ پی پی کا چیئرمین کسی ہندو یا عیسائی کو بنا دیا جائے۔اس میں تو کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں۔اور اگر ایسا نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب ہے کہ سیکولرزم کے دیگر بیشتر علمبرداروں کی طرح یہاں بھی منافقت کا راج ہے، اور سیکولرزم کا دوسرا مطلب دین سے بیزاری ہے۔اور جب عملی کام کرنے کا موقع آئے اور قربانی کی ضرورت ہو، تو نتیجہ صفر نکلے۔(ہاں ایک صورت اس کی ہی ہو سکتی ہے کہ (خدا نخواستہ) موصوف خود ہی عیسائی مذہب اختیار نہ کر لیں)۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلاول وزیر اعظم نہیں بن سکتا کیوں کہ عمر کی شرط بیچ میں حائل ہے۔ وہ یقینا یہ بھول رہے ہیں کہ ہمارے یہاں قانوں طاقتور کے لئے موم کی ناک ہے۔ جب مشرف کو ضرورت تھی، تو اس نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی لگا دی۔ اب جب موجودہ حکومت کی باری آئی تو اس نے یہ پابندی ہٹا دی۔ اب اگر آقا کی نظر کرم بلاول پر ہو گئی، تو یہ عمر کی حد بھی ختم یا کم کر دی جائے گی۔
آ خر کب تک ہم پر ایسے حکمران مسلط رہیں گے، جوتب تک ہی ملک میں رہتے ہیں، یا تب ہی ملک میں آتے ہیں جب انہیں حکمران بننے کی امید ہوتی ہے۔سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگرآج کوئی نجومی بلاول کو یہ کہہ دے،(اور اسے یقین بھی آ جائے) کہ وہ وزیر اعظم تو کیا عام سا وزیر مشیر بھی نہیں بن سکتا، تو وہ ایک دن بھی ملک میں نہیں ٹھہرے گا،بلکہ وہیں واپس چلا جائے گا جہاں عمر کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔ اس کی تازہ مثال سندھ کے سابق گورنر نے پیش کی ہے، جو چودہ سال تک لگاتار گورنر رہا، مگر جیسے ہی حکومتی عہدہ ہاتھ سے گیا، دو دن بھی ملک میں ٹکنا گوارا نہ کیا۔