وزیرستان کی کہانی سابق سفیر ایاز وزیر

Hussain Mavia

Senator (1k+ posts)

1537085123228139" data-width="540" data-allowfullscreen="true">


https://www.facebook.com/video.php?v=1537085123228139&set=vb.14965280206171 83&type=2&theater

::::::: ???????? ?? ????? ???? ???? ?? ????? ::::::::

????? ?? ???? ?????? ???? ? ??????? ??? ???? ??? ? ??? ?? ????? ???? ??? ??? ??? ??? ???? ????? ??? ??? ????? ??? ?????? ??? ???? ??? ?????? ????? ??? ??????? ?? ????? ????? ?? ????? ????? ???? ???? ???? " ???? ???? " ?? ?????

?? ?? ??? ???? ? ??? ???????? ?????? ?? ?????? ??? ??? ????? ?? ????? ????? ?? ???? ????? ???? ???? ???? ????? ?? ???? ??????

???? ???? ????

 
Last edited by a moderator:
allah bhi pata nahe kab madad karey ga Pakistan ke ghareebon ki .. ghareeb ka bachay in chand Islamabad ke ameeron ki malkiyat hain .tumhara kia khayal hai ghareb ke bahchay ko apnay bachay jesi taleem dai kar oss ke khilaf css ke exam mein betha lain . kal on ke ghar ke kam kon karye ga . kal on ke liye jihad ke nam par india say kon laray ga .. iss koam ko jahil rakhnay mein hi in corrupt gernailon ki ayashi or badmashi posheeda hai ..mulk ko tarqi dai di tu david Cameron or Obama ki tarah chahye ka cup bhi khud banana parey ga kamray ki safai bhi khud karni paray gi .. jin ki begmon ko batmano ki adat pari ho who batman bana chor dain kia .. yeh yeh loag kabhi nahe honay dain gai
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم

جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟
اوریا مقبول جان

میڈیا کےکیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہور زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین حال میں شہر کے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ تنظیم اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہ چکے تھے۔

تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔

یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔

ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور ہتھکنڈا بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔


اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:
"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔

اوریا مقبول جان
 

AXIOM

MPA (400+ posts)
yehi tau rona hai bhai.. iss jang ka na koi pair hai na koi sira.. koi pooche ke terrorism shrooh kaisay hui tau koi jawab nahin.. khatam kaisay ho gi tau koi logic nahin. Bus maarte jaao
 

کی جاناں میں کون

Chief Minister (5k+ posts)
Muahda jis ney bhi tora .kiya riasat key ander riasat bnana thekh h ey?

جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟
اوریا مقبول جان

میڈیا کےکیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہور زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین حال میں شہر کے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ تنظیم اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہ چکے تھے۔

تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔

یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔

ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور ہتھکنڈا بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔


اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:
"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔

اوریا مقبول جان
 
Muahda jis ney bhi tora .kiya riasat key ander riasat bnana thekh h ey?
janab e muhtaram yeh tu batain ke riasat ke undar riasat kesay banai jatai hai .. baap ko sehan mein katal howa deknay ke baad chand bandokain rakhnay par .masajid ke shaheed kiye jane par ahtajaj karnay par .yar Pakistan or islami kanon ke mutabik dhanda karnay wali khatoon ko lagam na dalnay par ahtajaj karnay par ... ya riasat ke undar riast easay banti hai ke 6 lack army ke sir par elected primminster ko thoday mar kar bahir nikala jaye apni kargil ki chawal chopana ke liye .? zara wazhat karein please .. or yeh bhi irshad farmiye ga 12 may ko Karachi ke target killers say awam ko jo nishanay haider diya gai ..ya dr shazia ke rapist captain hammad ko bachanay ke liye pora balouchistan l laga dia oss say riasat ko kitna daimi tahafuz milta hai ... sorry agar koi baat bri lagay ham jahil takfree hain shayad aap ki ayash sharab anti shameem ke ain shari zindagi par sawal otha kar ghareebon ke haqooq lot kar begum ko London Dubai night club lay kar dainay par kha maka tafarka kartay hain pleas bora na manaye ga ham app ke life style say jelous ho jata hain hamay jaldi jaldi phansi dain ham jaham ke ***** hain thanks
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Jo kargardgi 30 saal pehley dkha rahey they tou kiya woh thekh thi?

لگتا ہے آپ نے سفیر صاحب کی گفتگو سنے بغیر ہی کمنٹس لکھنا شروع کر دئیے
لکیر پیٹنے سے سانپ نہیں مرے گا. انے والا کل بہتر بنانے کے لئے آج کیا درست کرنا ہے اس پر توجہ ہونی چاہے
 
Jo kargardgi 30 saal pehley dkha rahey they tou kiya woh thekh thi?
yeh sawal tu hamara aap say banta hai ke 30 sal pehlay eik or dushman sir par aya tu oss wakt bhi aap nay oss ka sath kiyon nahe dia oss ke khilaf tu gharebon ke in bacho ko jahad laraya alam course bhi short kar dia ke jaldi training lo or ja kar laroo tab bhi kehtay yeh jo rassia aya hai yeh tu hamarey abu jan hai hamey pathar ke door mein pohancha dai ga agar iss say laray tab bi aap nay ghareebon ke bahcay marwaye .. woh tu tab bhi laray thay aaj bhi lar rahay hai u trun tu aap nay liya janab
 

Hussain Mavia

Senator (1k+ posts)


امریکی سفیر ضرب ڈالر کے بعد وزیر ستان کا دورہ کر رہے. ساتھی ہی ساتھ امریکہ کے بااعتماد فوجی بھی ہے لاکھ دفعہ کہنے سے بھی یہ نوجوان نسل نہیں مانتے کہ یہ آپریشن امریکہ کر رہی ہے فائدہ امریکہ کو ہے فوجی پاکستان کے مر رہے ہیں. افسوس بہت ہی کم لوگ سمجھتے ہیں.



10933775_865483323502194_3754433109521147900_n.jpg
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
۔ اس بیچارے کی فاٹا میں کوئی بھی طالبان نہیں سنتا تھا ، اس لیے حیلے بہانے سے ہر وقت ہمیں ہی لیکچر دیتا رہتا تھا . اس کی اس تقریر کے بعد فاٹا کے رستم شاہ مہمند کو مذاکراتی کمیٹی میں ڈال کر باقاعدہ مذاکرات شروع کیے گے مگر ہر مرحلے پر خنزیر طالبانوں نے شہروں، بازاروں، مارکیٹوں، مساجد میں بم پھاڑنے اور فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا. مجبوراپاکستانی قوم اور فوج کو اس مذاکراتی مثبت ماحول سے باہر نکل کر جوابی کاروائیوں...... خیبر ، اورکزئی اور مہمند ایجنسیز میں چھوٹے آپریشنز ......آپریشن ضرب عضب.... اور اب گرفتار دہشت گردوں کی پھانسیوں پر عمل کرنا پڑا. اوپر بیان کیے گے تمام اقدامات جوابی اور دفاعی نوعیت کے تھے اور ان تمام اقدامات کے پیچھے ساری قوم (سواے چند طالبانی لورز کے) کھڑی تھی اور کھڑی ہے. طالبانی سپورٹرز ایک نہایت قلیل اقلیت میں ہیں اور انکے جھوٹے بہانوں کو ساری قوم اچھے طریقے سے سمجھ چکی ہے. مذاکرات انسانوں سے ہو سکتے ہیں، جانور طالبانوں یا تامل ٹائیگرز سے نہیں. بہرحال اسکی مذاکرات والی پالیسی کو طالبان نے توڑ پھوڑ کر کب کا سمندر برد کر دیا ہے

پاکستانی قوم سمجھ چکی ہے ہے کہ جنگ کیلیے پال پوس کر تیار کردہ یہ خنزیر صرف جنگ لڑنا جانتے ہیں. اس لیے یا تو انکو مار دیا جاے یا یہ ہمیں مار دینگے(ملا فضل اللہ یہ سب مار دھاڑ چھوڑ کر اب مونگ پھلی کی ریڑھی لگانے سے تو رہا :)). فاٹا کے عام لوگ انکے ہاتھوں یرغمال ہیں اور پاکستان کی اندھا دھند جوابی کاروائیوں سے نالاں بھی. لہٰذا ان خنزیروں کے خاتمہ کے بعد فاٹا کے لوگوں کی تمام ناراضگیوں کا ازالہ کیا جاے . باقی اتنی زیادہ قربانیوں کے بعد فاٹا کے لوگوں کو بھی سمجھ آ گی ہے کہ بندوبستی علاقوں کی نسبت آزاد یا علاقہ غیر کے اگر کچھ 'فوائد' ہیں تو نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں. اگر ڈرونز کے ماوراے عدالت قتل پر عالمی اور ملکی قانون کی پاسداری چاہیے تو ناجائز اسلحہ بنانے/بیچنے ، منشیات اگانے / بیچنے، اغوا براے تاوان، چوری کی گاڑیوں کا کاروبار، اسمگلنگ اوربندوبستی علاقوں کے مجرموں کو پناہ دینے پر بھی عالمی اور ملکی قوانین کی پاسداری کرنا ہو گی . اور دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی ملکی یا غیر ملکی ڈالروں/ریا لوں کے تھیلے لیکر تمھیں جہاد کے نعرے لگوانے کیلیے آ ے تو ضرور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے
 

Back
Top