وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟

habibak1121.jpg


وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی یا کامیاب؟ اگر تحریک انصاف کے کچھ ناراض ارکان اپوزیشن کا ساتھ دے بھی دیں تو کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنی ہی سیٹ سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے؟ حبیب اکرم کاتجزیہ

اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن سے مل جائیں تو کیا ہوگا؟ اگر تحریک انصاف کے ارکان اپوزیشن کا ساتھ دینگے تو کیا ہوگا؟ صحافی حبیب اکرم نے اہم نقطہ اٹھادیا۔

اپنے ویڈیو لاگ میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری کیلئے منظوری کے لیے کم ازکم اسے ایک 172 کی حمایت درکار ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آئی تھی تو اس وقت انہیں ایک 178 کی حمایت حاصل تھی۔ ان اراکین میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے تحریک انصاف نے اپنی حکومت تشکیل دی تھی۔

حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے اتحادی اپنی بائیس نشستوں کے ساتھ الگ ہوکر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل جاتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت تحریک عدم اعتماد پیش کیے بغیر ہی ختم ہوجائے گی ۔ اگر یہ اتحادی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو پھرتحریک عدم اعتماد پیش ہوبھی جائے توچند دن کے شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔


تجزیہ کار نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں خفیہ ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ کھڑے ہوکر بتانا ہوگا کہ فلاں بن فلاں عمران خان کے خلاف ہے۔ اگر کوئی یا وزیراعلیٰ پراعتماد یا عدم اعتماد کے وقت اپنا ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے یا غیرحاضر ہوتا ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔

دوسری صورت میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا کوئی ایم این اے اگراس موقع پروزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو سپیکر اس شق کے مطابق اس کا ووٹ مسترد کرسکتا ہے کیونکہ یہ ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال ہورہا ہوگا۔

حبیب اکرم نے سوال اٹھایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراتحادی حکومت چھوڑ کراپوزیشن کے مطالبے پروقت سے پہلے اسمبلی توڑنے کی کسی بھی کاوش کا حصہ کیوں بنیں گے؟

حبیب اکرم نے مزید کہا کہ اتحادیوں کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کیلئے اہم چیز مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں مکمل اتفاق و اتحاد ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں اسی سال کے آخر میں وزیراعظم نے کچھ ایسی تقرریاں کرنی ہیں جن پرکسی مخصوص شخص کا تقرر اس کیلئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کیلئے یہ معاملہ زیادہ اہم نہیں بلکہ ابتدائی طور پر تو اس کی کوشش تھی کہ عمران خان کی جگہ پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا وزارت عظمیٰ سنبھالے اور یہ تقرریاں وہ کرے۔

تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں اپنا حسن ظن یہ تھا کہ سیاستدان پاکستان کے معاملات کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں۔ تجربے نے بتایا کہ ہمارے سیاستدان صرف اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، ملک، قوم یا ترقی ان کے ایجنڈے پراپنے مفاد کے بعد آتے ہیں۔
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
Pragmatic analysis...from an unbiased angle.
habibak1121.jpg


وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی یا کامیاب؟ اگر تحریک انصاف کے کچھ ناراض ارکان اپوزیشن کا ساتھ دے بھی دیں تو کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنی ہی سیٹ سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے؟ حبیب اکرم کاتجزیہ

اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن سے مل جائیں تو کیا ہوگا؟ اگر تحریک انصاف کے ارکان اپوزیشن کا ساتھ دینگے تو کیا ہوگا؟ صحافی حبیب اکرم نے اہم نقطہ اٹھادیا۔

اپنے ویڈیو لاگ میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری کیلئے منظوری کے لیے کم ازکم اسے ایک 172 کی حمایت درکار ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آئی تھی تو اس وقت انہیں ایک 178 کی حمایت حاصل تھی۔ ان اراکین میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے تحریک انصاف نے اپنی حکومت تشکیل دی تھی۔

حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے اتحادی اپنی بائیس نشستوں کے ساتھ الگ ہوکر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل جاتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت تحریک عدم اعتماد پیش کیے بغیر ہی ختم ہوجائے گی ۔ اگر یہ اتحادی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو پھرتحریک عدم اعتماد پیش ہوبھی جائے توچند دن کے شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔


تجزیہ کار نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں خفیہ ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ کھڑے ہوکر بتانا ہوگا کہ فلاں بن فلاں عمران خان کے خلاف ہے۔ اگر کوئی یا وزیراعلیٰ پراعتماد یا عدم اعتماد کے وقت اپنا ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے یا غیرحاضر ہوتا ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔

دوسری صورت میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا کوئی ایم این اے اگراس موقع پروزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو سپیکر اس شق کے مطابق اس کا ووٹ مسترد کرسکتا ہے کیونکہ یہ ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال ہورہا ہوگا۔

حبیب اکرم نے سوال اٹھایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراتحادی حکومت چھوڑ کراپوزیشن کے مطالبے پروقت سے پہلے اسمبلی توڑنے کی کسی بھی کاوش کا حصہ کیوں بنیں گے؟

حبیب اکرم نے مزید کہا کہ اتحادیوں کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کیلئے اہم چیز مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں مکمل اتفاق و اتحاد ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں اسی سال کے آخر میں وزیراعظم نے کچھ ایسی تقرریاں کرنی ہیں جن پرکسی مخصوص شخص کا تقرر اس کیلئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کیلئے یہ معاملہ زیادہ اہم نہیں بلکہ ابتدائی طور پر تو اس کی کوشش تھی کہ عمران خان کی جگہ پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا وزارت عظمیٰ سنبھالے اور یہ تقرریاں وہ کرے۔

تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں اپنا حسن ظن یہ تھا کہ سیاستدان پاکستان کے معاملات کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں۔ تجربے نے بتایا کہ ہمارے سیاستدان صرف اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، ملک، قوم یا ترقی ان کے ایجنڈے پراپنے مفاد کے بعد آتے ہیں۔
پا جی جو حالات ہوۓ ہوۓ ہیں - ان لوگوں یعنی پی ٹی آئ کے ایم این ایز کو اپنی شکل اپنے اپنے حلقوں میں دکھانی ہوتی ہے - ایسے حالات میں ناراضگی کا ڈرامہ کافی ریٹنگ لے سکتا ہے

پی ٹی آئ کے ملک کے اندر سپورٹرز اس وقت شدید اداسی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں اور بلکل خاموش اور کنارہ کش ہو چکے ہیں
صرف بارلے ہیں جو اس فورم اور فیس بک وغیرہ پر دھما چوکڑی مچا کر رکھتے ہیں
 

Back
Top