دیسی عورتوں کی ایک عادت بہت مشہور ھے۔ یہ عورتیں جب اپنے سسرال ہوتی ہیں تو سارا دن سر پر پٹی باندھے پھرتی ہیں، سسرال میں ہر کسی سے جھگڑا کرکے بول چال بند کئے رکھتی ہیں اور بات بات پر کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ لیکن جب یہی عورتیں اپنے میکے جاتی ہیں تو فوراً ہشاش بشاش ہوجاتی ہیں۔ سر سے پٹی بھی اتر جاتی ھے، چہرے پر میک اپ بھی ہوجاتا ھے، ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی آجاتی ھے اور ہر ایک سے چہک چہک کر باتیں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔
کچھ یہی حال شریف فیملی کا بھی ھے۔جب یہ لوگ پاکستان میں بزنس کرتے ہیں تو ہر سال ان کے کاروبار نقصان میں جاتے ہیں۔ بنکوں سے قرضے لے کر اپنی کمپنیاں دیوالیہ کروا کر قرضے معاف کروا لیتے ہیں اور پھر قرقی کے زریعے وہی فیکٹریاں اپنے ملازمین یا رشتے داروں کے زریعے سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ آپ 1990 سے لے کر 1999 تک کی شریف فیملی کی ٹیکس ریٹرنز دیکھ لیں، 9 سالوں کی مجموعی آمدن 20 لاکھ روپے سے بھی کم شو کی گئی تھی اور اسی لئے ہر سال چند ہزار روپے ٹیکس دے کر پتلی گلی سے نکل جایا کرتے تھے (یہاں انکم ٹیکس کی بات ہورہی ھے، سیلز ٹیکس کی نہیں)۔
لیکن جونہی یہ لوگ سعودی عرب گئے اور وہاں ایک سٹیل مل لگائی، چند سالوں میں اس کا منافع اتنا ہوگیا کہ 500 ملین ڈالر کی آف شور کمپنیاں صرف حسین نواز نے خرید لیں، مزید ڈیڑھ بلین ڈالر کی رئیل سٹیٹ اور وینچر کیپٹل بزنس لندن میں خرید لیا۔ اس کے علاوہ بھی پتہ نہیں کہاں کہاں اور کتنا منہ مارا، کسی کو کچھ خبر نہیں۔
جدہ سٹئل مل نے 5 سالوں میں جتنا منافع شریف فیملی کو دیا، وہ دنیا کی دس بڑی سٹیل ملوں کی مجموعی آمدن سے بھی زیادہ ھے۔ صاف بات ھے کہ سٹیل مل صرف ایک بہانہ ھے۔ چونکہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں دینا پڑتا، وہاں یہ اپنی فیکٹری کا منافع چاھے زیادہ بھی ڈیکلئر کردیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ پیسہ جدہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کو لوٹ کر کمایا گیا تھا
اور پھر منی لانڈرنگ کے زریعے باہر بھجوایا گیا۔شریف فیملی کی مثال بالکل اسی دیسی عورت کی سی ھے جسے سسرال میں موت پڑی رہتی ھے لیکن میکے میں گلچھرے مناتی ھے۔ شریف فیملی کا سسرال پاکستان ھے اور میکہ سعودی عرب، لندن اور دبئی!!!
کچھ یہی حال شریف فیملی کا بھی ھے۔جب یہ لوگ پاکستان میں بزنس کرتے ہیں تو ہر سال ان کے کاروبار نقصان میں جاتے ہیں۔ بنکوں سے قرضے لے کر اپنی کمپنیاں دیوالیہ کروا کر قرضے معاف کروا لیتے ہیں اور پھر قرقی کے زریعے وہی فیکٹریاں اپنے ملازمین یا رشتے داروں کے زریعے سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ آپ 1990 سے لے کر 1999 تک کی شریف فیملی کی ٹیکس ریٹرنز دیکھ لیں، 9 سالوں کی مجموعی آمدن 20 لاکھ روپے سے بھی کم شو کی گئی تھی اور اسی لئے ہر سال چند ہزار روپے ٹیکس دے کر پتلی گلی سے نکل جایا کرتے تھے (یہاں انکم ٹیکس کی بات ہورہی ھے، سیلز ٹیکس کی نہیں)۔
لیکن جونہی یہ لوگ سعودی عرب گئے اور وہاں ایک سٹیل مل لگائی، چند سالوں میں اس کا منافع اتنا ہوگیا کہ 500 ملین ڈالر کی آف شور کمپنیاں صرف حسین نواز نے خرید لیں، مزید ڈیڑھ بلین ڈالر کی رئیل سٹیٹ اور وینچر کیپٹل بزنس لندن میں خرید لیا۔ اس کے علاوہ بھی پتہ نہیں کہاں کہاں اور کتنا منہ مارا، کسی کو کچھ خبر نہیں۔
جدہ سٹئل مل نے 5 سالوں میں جتنا منافع شریف فیملی کو دیا، وہ دنیا کی دس بڑی سٹیل ملوں کی مجموعی آمدن سے بھی زیادہ ھے۔ صاف بات ھے کہ سٹیل مل صرف ایک بہانہ ھے۔ چونکہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں دینا پڑتا، وہاں یہ اپنی فیکٹری کا منافع چاھے زیادہ بھی ڈیکلئر کردیں، انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ پیسہ جدہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے غریب عوام کو لوٹ کر کمایا گیا تھا
اور پھر منی لانڈرنگ کے زریعے باہر بھجوایا گیا۔شریف فیملی کی مثال بالکل اسی دیسی عورت کی سی ھے جسے سسرال میں موت پڑی رہتی ھے لیکن میکے میں گلچھرے مناتی ھے۔ شریف فیملی کا سسرال پاکستان ھے اور میکہ سعودی عرب، لندن اور دبئی!!!