http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/09/140913_india_model_village_gujarat_mb.shtml
گجرات ماڈل کے متعلق تو بحث ابھی بھی جاری ہے کہ یہ ماڈل آخر کیا ہے۔ بہر حال احمد آباد سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ایک گاؤں ماڈل ولیج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اسے ماڈل ولیج بنانے کا کام نریندر مودی کی وزارتِ اعلی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا۔
بھارت کے کسی گاؤں کا تصور ایک عام ذہن میں کچھ اس طرح ابھرتا ہے: کچے مکانات، تنگ و تاریک گلیاں، بہتی نالیاں، پانی اور بجلی کی عدم موجودگی۔
اس تصویر کے برعکس یہاں بجلی، صاف پینے کا پانی اور پانی کی نکاسی کا پورا انتظام ہے۔ گاؤں کے پرائمری سکول میں کمپیوٹر اور پورے گاؤں میں وائی فائی موجود ہے۔
یہ ہےگجرات کا پنساري گاؤں جہاں شہر کی تمام سہولیات مموجود ہیں اور یہ ملک کا پہلا ایسا گاؤں ہے جو احمد آباد سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ماڈل ولیج (نمونے کاگاؤں) کہا جا رہا ہے۔
اس گاؤں کے سرپنچ ہمانشو پٹیل کہتے ہیں 6،000 کی آبادی والے ان کے گاؤں کے ہر گھر میں بجلی اور پانی کی سہولت ہے۔ یہاں پانی کی نکاسی کا بھی نظام ہے۔
اس تصویر کے برعکس یہاں بجلی، صاف پینے کا پانی اور پانی کی نکاسی کا پورا انتظام ہے۔ گاؤں کے پرائمری سکول میں کمپیوٹر اور پورے گاؤں میں وائی فائی موجود ہے۔
یہ ہےگجرات کا پنساري گاؤں جہاں شہر کی تمام سہولیات مموجود ہیں اور یہ ملک کا پہلا ایسا گاؤں ہے جو احمد آباد سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ماڈل ولیج (نمونے کاگاؤں) کہا جا رہا ہے۔
اس گاؤں کے سرپنچ ہمانشو پٹیل کہتے ہیں 6،000 کی آبادی والے ان کے گاؤں کے ہر گھر میں بجلی اور پانی کی سہولت ہے۔ یہاں پانی کی نکاسی کا بھی نظام ہے۔
اس گاؤں پر سنہ 2006 سے کام شروع ہو چکا تھا
پینے کے لیے منرل واٹر (پانی) کا بھی علیحدہ انتظام ہے۔
پٹیل کہتے ہیں: پورے گاؤں میں وائی فائی کنکشن ہے، جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔
گاؤں کی سرگرمیوں کو ہمانشو اپنے دفتر کے ایک بڑے سکرین پر بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر بھی۔
یہاں لاؤڈسپيكرز بھی لگے ہیں۔ مجھ سے پہلے گاؤں کی سہولیات کا جائزہ لینے تمل ناڈو کے چیف سیکریٹری بھی آئے تھے اور پٹیل نے اپنے دفتر میں بیٹھ کر ان کی باتیں نشر کی تھیں۔
پینے کے صاف پانی کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی یہاں موجود ہے
پورے گاؤں میں مجموعی طور پر 150 لاؤڈسپيكرز لگے ہیں، ان سے سرپنچ کا اعلان لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔
سمارٹ ولیج کے سرپنچ پٹیل بھی سمارٹ ہیں۔ ان کے پاس سمارٹ فون ہے، جس کے سکرین پر گاؤں کی سہولیات کی اطلاع سے متعلق ایپلیکیشنز ہیں۔
اسے ماڈل ولیج اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے دو پرائمری سکول بھی سمارٹ سکول ہیں۔ ہمانشو اپنے دفتر کے اندر ایک بڑے سکرین پر ان سرکاری سکولوں کو بھی مانیٹر کر رہے تھے۔
اس کے بعد فخریہ انداز میں وہ اس سکول کی لائیو تصاویر اپنے فون کی سکرین پر دکھانے لگے۔
سولر لائٹ کے علاوہ پورے گاؤں میں 150 لاؤڈسپیکرز لگے ہیں
سکول کی پرنسپل بھگوت بہن پٹیل بتاتی ہیں کہ یہ سمارٹ سکول اس لیے ہے کیونکہ یہاں کوئی طالب علم درمیان میں پڑھائی نہیں چھوڑتا اور یہاں امتحانات کے نتائج سب سے اچھے ہوتے ہیں۔
یہ سمارٹ سکول اس لیے بھی ہے کیونکہ یہاں چھوٹے بچوں کو بھی کمپیوٹر ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ایک بچے نے مجھے اس کا استعمال کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر کے استعمال میں وہ ماہر ہے۔
گاؤں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں جس سے سرپنچ گاؤں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں
اس لڑکے کی کلاس میں 15 طالب علم تھے اور کمپیوٹر کی تعداد بھی تقریبا اتنی ہی تھی۔ ایسا میں نے کسی گاؤں کے سکول میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
سرپنچ کہتے ہیں: سنہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعلی اور اب ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں اس گاؤں کو سمارٹ ولیج بنانے کا کام شروع ہوا تھا۔
سکول کے ایک درجے میں جتنے بچے اتنے ہی کمپیوٹرز بھی ہیں
اب تک اسے سمارٹ بنانے میں کتنے پیسے خرچ کیے گئے ہیں؟ اس کے جواب میں ہمانشو کہتے ہیں کہ سنہ 2006 سے 2012 تک کے تمام منصوبوں میں 14 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور یہ تمام پیسے ریاست اور مرکزی حکومتوں کے دیہی منصوبوں سے آئے۔
اس گاؤں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرکاری سکیموں کے صحیح استعمال سے ملک کے دوسرے گاؤں بھی ترقی کر سکتے ہیں اور نمونے کے سمارٹ گاؤں بن سکتے ہیں۔
اس گاؤں کے قیام کا مقصد گاؤں میں ہی روزگار فراہم کرنا بھی ہے اور اس سلسلے میں کئی خانوادے اس گاؤں میں واپس آگئے ہیں۔