
پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے نرم گوشہ رکھنے اور تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ایک بار پھر سے رائے بدل گئی ہے، صحافیوں نے عدم اعتماد کو بھی ایک غلطی قرار دیدیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت کو ایک ماہ گزرنے کے بعد عدم اعتماد کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے صحافیوں کی رائے بھی بدل گئی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے پی ڈی ایم جماعتوں پرطنز کرنا شروع کردیئے ہیں۔
سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں سرائیکی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اور لیں مزے عدم اعتمادیوں کے۔

تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے موجودہ صورتحال میں ریاستی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے مقتدر حلقوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، اگر عمرانی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر حکومت کو اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا گیا تو مقتدر حلقوں کی وہ پوزیشن ہوجائے گی کہ نا خدا ہی ملا نا وصال صنم۔
انہوں نے کہا کہ انہیں پھر نا عمران خان اپنائیں گے اور دوسری طرف باقی تمام سیاسی جماعتیں بھی بھپر جائیں گی۔
نصرت جاوید نے بھی اس سے ملتا جلتا بیانیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ملٹری اور عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ملٹری و عدلیہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت خود اپنے اوپر دباؤ ڈال رہی ہے، لاڈلا اقتدار میں ہو یا باہر لاڈلا ہی ہوتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی بولے کیا اس حکومت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کردینا چاہیے؟ یا یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ڈکٹیشن لینےسے انکار کرنے کی جرات کرسکتی ہے؟
سینئر اینکر و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں ہلچل کا سماں ہے، وزیراعظم کی تمام مصروفیات منسوخ کردی گئی ہیں اور اس وقت بحث یہ چل رہی ہے کہ وزیراعظم کو کب قوم سے خطاب کرنا چاہیے، "ایک پیج" اب مزید ایک نہیں رہا۔
سرل المیڈا نے کہا کہ ن لیگ اس وقت کسی ڈیل کی تلاش میں ہے جبکہ عمران خان لڑکوں کو اپنے تابع کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔
سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید بولے کیا میں نے پہلے بار بار یہ نہیں بتایا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی دھوکہ کھا گئے ہیں، عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالنا ایک غلط فیصلہ تھا، اس میں کامیابی کے باوجود ان کے پاس قبل از وقت انتخابات ہی واحد آپشن بچتا ہے۔
عمر چیمہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عمران خان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اداروں سےکیسے پیش آیا جائے تو وہ نہ صرف بات سنتے ہیں بلکہ آپ کے موقف کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔
کامران یوسف بولےایک طرف پی ڈی ایم کہتی ہے کہ اسٹیبلمشنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے تو دوسری طرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے ضمانت مانگی جارہی ہے کہ ہم مشکل فیصلے تب کریں گے جب ہمیں بقیہ مدت تک حکومت میں رہنے دیا جائے گا۔
یادرہے کہ سینئر صحافی و تجزیہ کار سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے چند روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف نے عمران خان کی تباہ کن پالیسیوں کی سیاسی قیمت چکانے سے انکار کردیا ہے،اب بے سمت و بے اثر نظر آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔