
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کو براہ راست نشر نا کرنے کے حوالے سے وجوہات بتادی ہیں، صحافی و قانون دانوں نے ان وجوہات کو چیف جسٹس کے اپنے ہی احکامات کے منافی قرار دیدیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےنیب ترامیم کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، فیصلے میں عمران خان کی موجودگی میں گزشتہ سماعت کو براہ راست نشر نہ کرنے کی وجہ لکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ " سپریم کورٹ اس مقدمے کو براہ راست نشر نہیں کرتی جن میں سیاسی یا ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، عدالت کو شک تھا کہ براہ راست نشریات میں ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلئے سیاسی گفتگو ہوسکتی ہے، عدالت کا شک درست ثابت ہوا جب عمران خان نے سیاسی گفتگو شروع کر دی، موجودہ کیس سے ہٹ کر 8 فروری کے انتخابات اور جوڈیشل کمیشن کی بات کی"۔
https://twitter.com/x/status/1796868813209620854
صحافی و کورٹ رپورٹر نے فیصلے میں بیان کی گئی وجہ کے حوالے سےاپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے اس حکمنامے میں کچھ اصول طے کیے ہیں کہ سپریم کورٹ میں سیاسی گفتگو کی اجازت نہیں دی جاسکتی، عدالت کے سامنے زیر سماعت کیسز پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور صرف مفاد عامہ کے مقدمات کی براہ راست نشریات ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے آج وضع کیے اپنے ہی اصولوں کو خود ہی درجنوں مرتبہ پامال کیا ہے، سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر 40 مرتبہ مختلف مقدمات کی سماعت براہ راست نشر کی گئی، اس سے ثابت ہوا کہ ملکی سیاست پر سب سے زیادہ گفتگو کمرہ عدالت نمبر 1 میں ہوتی ہے۔
وسیم ملک نے کہا کہ دوسرے اصول کی خلاف ورزی ایسے ہوئی کہ جناب چیف نے کسی اور مقدمے کی سماعت کے دوران ان کیسز پر بھی سخت ترین آبزرویشنز دیں جو ان کے سامنے نہ تھے، معاملہ آبزرویشنز پر نہیں رکا بلکہ متعدد مرتبہ تو حکمنامے میں شامل فرما دیا اور تیسرے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا گیا کہ نیب ترامیم کا مقدمہ مفاد عامہ کا نہیں، تکنیکی نوعیت کا ہے، پھر خود ہی اسی فیصلے میں آگے جا کر فرمایا کہ 14 مئی کی سماعت کو براہ راست نشر کیا گیا، 16 اور 29 مئی کی سماعت کو نشر نہیں کیا گیا۔
یعنی معاملہ کیس کے مفاد عامہ یا تکنیکی نوعیت کا نہیں، عمران خان کی سماعت میں موجودگی کا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1796893178227748899
اس عدالتی فیصلے پر دیگر صحافیوں اور قانون دانوں نے بھی تنقید کی،قسمت خان نے کہا کہ 8 فروری کو بھٹو ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ، ایسا کیس جس پر پیپلزپارٹی کا سیاسی بیانیہ ہے اور اس کیس کو لائیو اسٹریم بھی کیا گیا۔
https://twitter.com/x/status/1796892521756258612
صحافی طارق متین نے کہا کہ فیصلہ تو درخواست کی حد تک ہے چیف جسٹس فیصلے کے بعد والے واقعے (عمران خان کی گفتگو) کو فیصلے کا حصہ بنا سکتے ہیں کیا ؟
https://twitter.com/x/status/1796886847693468014
ماریہ عطاء نے کہا کہ جناب ایوب خان کے گناہوں کا ذمہ دار خود عمر ایوب کو قرار دے رہے تھے ہر کیس میں بغیر انکوائری 9 مئی کو لے آتے ہیں ، فیض آباد دھرنے میں 2014 کے دھرنے کو لے آئے تھے۔
https://twitter.com/x/status/1796872579254288507
زبیر علی نے کہا قاضی فائز عیسی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ چونکہ درخواستگزار سیاستدان ہیں اس لیے یہ خدشہ تھا جو بعد میں درست بھی ثابت ہوا کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اس پلیٹ فارم کو استعمال کریں گے۔۔۔ لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پارلیمنٹ میں تقریر کرنے پہنچ گئے جہاں سے ججز مخالف تقریر ہوتی رہی اور بعد میں جواز پیش کیا کہ مجھے نہیں تھا پتہ کہ وہاں سیاسی تقریر ہوگی، پارلیمنٹ میں سیاسی تقاریر ہی ہوں گے یہ خدشہ کیوں محسوس نہ کیا جناب قاضی نے؟
https://twitter.com/x/status/1796958510917320788
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/9faizskjjsisawajoohat.png