
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے تحلیل ہوئے نوے روز سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی انتخابات کی تاریخ بھی گزر چکی ہے، جس پر قانونی ماہرین کی جانب سے اظہار خیال کیا جارہا ہے۔
پلڈاٹ کے نمائندے احمد بلال محبوب نے ٹوئٹ میں لکھا کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کروانا آئینی تقاضا ہے، لیکن اگر ایک یا چند اسمبلیوں کی تحلیل کی بعد جزوی انتخابات ہوتے تو اس سے نگران حکومتوں سے متعلق ہماری آئینی شق A1)224) عملاً معطل ہو جاتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1663606836509958145
انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا آئینی شق 218(3) پر بھی عمل نہ ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ ہم نے تمام اسمبلیوں کے بیک وقت انتخاب کی حمایت کی، پی ٹی آئی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں نے بھی اس سے اتفاق کیا اور اب سپریم کورٹ بھی اس حل کی طرف مائل نظر آتی ہے۔نئی اسمبلی شاید ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس سقم کو دور کر پائے۔
https://twitter.com/x/status/1663608452856291331
احمد بلال نے مزید کہا آئین کی تینوں شقوں 224 1A 224 ،2 اور 218(3) کو ملا کے پڑھنا ہوگا،میں اس بارے الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست کےاستدلال سے متفق ہوں۔
سلمان اکرم راجا نے جوابی ٹویٹ میں لکھا آپ کی منطق کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں الیکشن کی شق کبھی نا فذالعمل نہیں ہوسکتی۔ وفاقی و دیگر صوبائی اسمبلیوں کی معیاد کی تکمیل کے بعد بہ یک وقت الیکشن ہی ممکن ہیں۔ یہ منطق 90 دن کی حد کو آئین میں ایک بے معنی دھبہ بنانے کے مترادف اور آج کی تباہی کا سبب ہے۔
https://twitter.com/x/status/1663769636817494016
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/bilal-slamanaahaha.jpg