نوکری سے شادی

Arslan

Moderator
قاسم مجھے اچھا لگا میٹرک پاس تھا اور ایک میڈیسن کمپنی کے پیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں پندرہ ہزار پر نوکری کرتا تھا والدین کی اکلوتی اولاد تھا باپ ویلڈنگ کا کام کرتا تھا اور شکل و صورت سے ہی بھلا مانس لگ رہا تھا ماں بیچاری ایک گھریلو عورت تھی اور ساری گفتگو میں ہلکے پھلکے جملوں سے اپنی موجودگی ثابت کر رہی تھی۔ اتنی دیر میں ثریا دوپٹہ اوڑھے چائے اور بسکٹوں والی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی ٹرے میز پر رکھی اور سلام لے کر صوفے کے کونے میں بیٹھ گئی۔ایک لمحے کے لیے ثریا اور قاسم کی نظریں ملیں پھر دونوں ہی شرما کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ قاسم کی ماں اُٹھ کر ثریا کے پاس آگئی اور بڑی محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیماشاء اللہ! بڑی پیاری بچی ہے۔میں نے خوش ہوکر اپنی بیگم کی طرف دیکھا گویا کام بن گیا تھا۔
ماسی جمیلہ طویل عرصے سے ہمارے ہاں کام کررہی ہے اب تو اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد کی ہوچکی ہے وہ صبح آٹھ بجے آجاتی ہے ناشتہ بناتی ہے برتن دھوتی ہے صفائی کرتی ہے کپڑے استری کرتی ہے اور دوپہر کا کھانا بنانے کے بعد واپس چلی جاتی ہے۔ماسی کا شوہر سبزی کی ریڑھی لگاتاہے ثریا اِن کی ایک ہی بیٹی ہے میٹرک کرنے کے بعد آگے نہیں پڑھی اوراب دو سال سے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں نرس لگی ہوئی ہے۔ آٹھ ہزار تنخواہ لیتی ہے اورساری تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھتی ہے۔تینوں کے پیسے ملا کر اتنے ہوجاتے ہیں کہ دو کمروں کے گھر کا کرایہ بھی نکل آتا ہے اورکچھ نہ کچھ گذارہ بھی ہوجاتاہے۔جب ثریاکی نوکری نہیں لگی تھی تو ماسی کے حالات بہت برے تھے دن رات پریشان رہتی تھی کہ بیٹی کی شادی کیسے کروں گی لیکن دو سال سے میں ماسی کے چہرے پر خاصی طمانیت دیکھ رہا ہوں اب اُن کے گھر کیبل بھی لگ گئی ہے اورماسی بڑے شوق سے نہ صرف ترکی کے ڈرامے دیکھتی ہے بلکہ میری بیگم سے روزانہ اس کی کہانی بھی ڈسکس کرتی ہے۔
ثریا کی عمر 22 سال ہوچکی ہے ہر ماں کی طرح ماسی کی بھی خواہش ہے کہ اس کی بیٹی کے لیے کسی اچھے سے لڑکے کا رشتہ آئے رشتے تو آتے ہیں لیکن ماسی کے دل کو کوئی نہیں بھاتا ہر دفعہ جب بھی کوئی رشتہ آتا ہے تو وہ مجھے اور میری بیگم کو بات کرنے کے لیے آگے کردیتی ہے ہمیں بہت سے لڑکے پسند آئے لیکن ماسی کے معیار پر کوئی پورا نہیں اترتا۔ میں کئی دفعہ ماسی کو سمجھا چکا ہوں کہ اگر آپ کو زیادہ پڑھا لکھا اور کھاتا پیتا لڑکا چاہیے تو یہی ڈیمانڈ لڑکے والوں کی بھی ہوسکتی ہے لہذا برابر کا رشتہ ڈھونڈیں۔قاسم کی فیملی سے ملاقات کے بعد میں نے ماسی اور اس کے شوہر کو سمجھایا کہ یہ نہایت موزوں رشتہ ہے لڑکا کماتا بھی ہے اور آپ کی بیٹی جتنا پڑھا لکھا بھی ہے خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے میٹرک پاس دو۔۔۔میری بات سن کر ماسی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا دونوں کی آنکھوں میں عجیب سی الجھن تھی۔ میری بیگم نے پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟ ماسی کا شوہر بے بسی سے بولاباجی!لڑکے کو کم ازکم بارہ جماعتیں پاس تو ہونا چاہیے۔۔۔اور پھر اِس لڑکے کا تو رنگ بھی پکا ہے میں اپنی اتنی پیاری ثریا کو اتنے کالے لڑکے سے کیسے بیاہ دوں؟ میں نے گہری سانس لیتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا جس کا رنگ لڑکے سے بھی زیادہ کالا تھا۔
ثریا کے لیے بہت سے رشتے آئے لیکن ماسی اور اس کے شوہر کی پسند پر کوئی پورا نہ اترا۔اِس دوران ایک دن بیگم نے مجھے ایک نئی بات بتائی کہنے لگی کہ ثریا ہمارے گھر آئی تھی اور اُس نے بتایا ہے کہ ہسپتال کے ایک لڑکے نے اُس سے شادی کی خواہش ظاہر کی ہے لڑکے کی تنخواہ پندرہ ہزار ہے رنگ بھی گندمی ہے اور ایف اے پاس ہے۔ میں خوشی سے اچھل پڑا گویا ماسی کے مطلب کا رشتہ مل گیا تھا۔ میری بیگم نے ثریا سے کہا کہ وہ لڑکے سے کہے کہ وہ اپنے والدین کو اُن کے گھر بھیجے۔ تین دن بعد لڑکا اور اس کے والدین ثریا کے گھر موجود تھے اور حسب معمول میں اور میری بیگم بھی۔لڑکے والوں کو ثریا بہت پسند آئی اور وہ بضد تھے کہ کوئی چھوٹی موٹی رسم ادا کردی جائے لیکن ماسی اور اس کے شوہر کے چہرے سے عجیب سی پریشانی عیاں تھی۔ انہوں نے سوچنے کے لیے کچھ وقت مانگا اورلڑکے والوں کو رخصت کر دیا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن پھر خود پر کنٹرول کرتے ہوئے ماسی سے پوچھااب کیا مسئلہ ہے؟ ماسی بے بسی سے بولیصاحب جی! باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن لڑکا کرائے کے گھر میں رہتا ہے میری ثریا کو کیسے سُکھی رکھے گا؟میں نے دانت پیسےجیسے آپ کا شوہر آپ کو سُکھی رکھتاہے۔یہ سنتے ہی ماسی کی آنکھوں میں آنسو آگئےصاحب جی میں نہیں چاہتی کہ جیسی مشکل زندگی میں نے گزاری ہے ویسی میری بیٹی گزارے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماسی اور اس کا شوہر آخر چاہتے کیا ہیں ایک دفعہ تو ایک ایسا رشتہ بھی آگیا جس میں لڑکے کا اپنا گھر تھا لیکن ماسی نے اعتراض کر دیا کہ لڑکے کی عمر کچھ زیادہ لگتی ہے۔ایک اور لڑکے کے بارے میں ماسی کی شکایت یہ تھی کہ اِس کو عینک کیوں لگی ہوئی ہے؟؟؟ ثریا کی عمر گزرتی جارہی تھی لیکن ماسی غالباً ایک آئیڈیل داماد کی تلاش میں تھی۔ایک دن مجھے کچھ شک سا گزرا میں نے بیگم سے ڈسکس کیا تو اس نے میرے دماغ کا خلل قرار دیا تاہم میں نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کرنے کی ٹھانی۔ایک دن میں نے ماسی کو سامنے بٹھایا اور اپنے ایک دوست کی تصویر دکھا کر کہاماسی! یہ لڑکا کیسا ہے؟ ایم اے پاس ہے ماں با پ فوت ہوچکے ہیں ایک کنال کے گھر میں رہتا ہےایک لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے اورگاڑی بھی رکھی ہوئی ہے۔ ماسی کے چہرے پر بے چینی کے آثار نمایاں ہوگئے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بولیصاحب جی! اتنی امیر جگہ لڑکی کو بیاہوں گی تو جہیز کہاں سے لاؤں گی؟؟؟ میں نے جلدی سے کہاجہیز کی فکر نہ کرو اول تو اِس نے کہا ہے کہ جہیز کی کوئی ضرورت نہیں تاہم پھر بھی جو کچھ ہم سے بن سکا وہ کریں گے۔ ماسی نے پیشانی پر آئے پسینے کے قطروں کو اپنی میلی چادر سے صاف کیا اور کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن میں ثریا کے ابا سے پوچھ کر کل بتاؤں گی۔ اگلی صبح جواب توقع کے عین مطابق آیا یہ لڑکا بھی مسترد ہوگیا اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ اِس کو تو اور بڑی اچھی اچھی لڑکیاں مل سکتی ہیں پھر یہ ہماری ثریا سے شادی پر کیوں رضامند ہے یقیناًاِس میں کوئی عیب ہے۔بیگم بھی الجھن کا شکار ہوگئی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماسی اور اس کا شوہر آخر کس قسم کا رشتہ چاہتے ہیں۔اِ س سے پہلے کہ ہماری یہ پریشانی مزید بڑھتی ایک دن ثریا نے ساری کہانی کھول دی اس کا پہلا جملہ ہی ایٹم بم تھا سرجھکا کر بولیمیری شادی ہوچکی ہے۔میں حیرت سے اچھل پڑاکیا کہہ رہی ہو کب ہوئی کس سے ہوئی؟؟؟ اُس کی خشک آنکھوں میں کچھ ستارے سے جھلملائے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی صاحب جی! مجھ جیسی بے شمار نوکری پیشہ لڑکیوں کی یہی پرابلم ہے اس تلخ حقیقت کو کوئی ماں باپ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں لیکن یہی سچ ہے میرے ماں باپ کو جو رشتہ پسند تھا وہ مل چکا ہے۔۔۔میں نوکری سے شادی کرچکی ہوں۔۔۔

source
 

Back
Top