نومئی کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کیساتھ کیا کچھ ہوا؟

haj1i1h1122.jpg

رجیم چینج اپریشن کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل عتاب کا شکار ہے لیکن تحریک انصاف کا براوقت اس وقت شروع ہوا جب 17 جولائی 2022 میں 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے جن میں تحریک انصاف نے 15 ، ن لیگ نے 2 جبکہ آزادامیدوار نے ایک سیٹ جیتی اور اسکے بعد عمران خان نے 9 حلقوں سے الیکشن لڑا اور 8 حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔

اسکے بعد عمران خان پر روز کی بنیاد پرنئے مقدمات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی لیکن تحریک انصاف پر مشکل وقت 9 مئی کے بعد شروع ہوا جب تحریک انصاف کو ایک سکرپٹ کے تحت توڑا گیا۔ کارکنوں کو گرفتار کرکے، اغوا کرکے پارٹی چھڑوائی گئی ۔

اس پر بھی اکتفا نہ ہوا تو 2 نئی جماعتیں استحکام پاکستان پارٹی اور پرویزخٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنوائی گئی۔عمران خان کوجیل میں ڈالا گیا، نااہل کیا گیا۔ اب سائفر کیس میں بھی سزا دینے کی تیاری ہے۔

صحافی محمد عمیر نے تحریک انصاف کا راستہ روکنے کے لئے ریاستی اقدامات گنوائے کہ تحریک انصاف کو کمزور کرنے اور راستہ روکنے کیلے کیا کیا حربے استعمال کئے گئے؟

ڈیڑھ سال سے کریک ڈاؤن
پنجاب اور کے پی میں انتخابات نہ کروا کر آئین اور سپریم کورٹ کی خلاف ورزی
پندرہ ہزار کارکن گرفتار
ملک بھر میں 400 سے زائد مقدمے
تین سو سے زائد رہنماؤں سے زبردستی پریس کانفرنس کروائی گئی
چیئرمین،وائس چیئرمین سمیت باقی لیڈر شپ جیل میں
انتخابی مہم چلانے پر پابندی
میڈیا پر بائیکاٹ
تاحال انتخابی نشان نہیں دیا گیا
من مرضی کی حلقہ بندیاں
مخالف سیاسی جماعتوں کو مکمل سپورٹ
عدالتوں کی جانب سے انصاف کا قتل
https://twitter.com/x/status/1734471807774699637
اب ناکامی پر عمران خان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور بشریٰ بی بی کی کردارکشی کی کوشش ہورہی ہے۔سابق شوہر خاور مانیکا کا پہلے ایک گھٹیا انٹرویو کروایا گیا اور پھر اسی کے ذریعے عدت میں نکاح کا کیس فائل کیاگیا۔

حاجرہ خان کی کتاب لانچ کروائی گئی۔ممکن ہے کہ آگے چل کر مزید خواتین کو لانچ کیا جائے جیسے ماضی میں عائشہ گلالئی، ریحام خان کو لانچ کیا گیا تھا لیکن ان میں ناکامی یقینی ہے ۔

کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہی تحریک انصاف کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے گئے، بعض کو جمع ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور بعض کے جمع ہونے ہی نہیں دئیے گئے جس کی وجہ سے مضبوط امیدوار الکشن میں حصہ لینے سے محروم ہوگئے۔

کچھ امیدواروں سے الیکشن میں حصہ نہ لینے کے اعلانات بھی کروائے گئے جن میں گجرات سے سید فیض الحسن شاہ شامل ہیں۔

اب عمران خان کے خلاف آخری حربہ کے طور پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھین لیا گیا ہے جس کا مقصد مسلم لیگ ن کو اکیلے ہی الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ دینا ہے۔توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کو بلا واپس مل جائے گا اسکے باوجود کوشش کی جائے گی کہ تحریک انصاف کو الیکشن میں ہاتھ پاؤں باندھ کر اتارا جائے،

آٹھ فروری ابھی دور ہے اس وقت تک کیا کیا ہوتا ہے؟ روز نت نئے واقعات ہونگے، ممکن ہے کہ عمران خان کو سائفر کیس میں جلد ازجلد سزا سنادی جائے تاکہ پی ٹی آئی ووٹرز مایوس ہوکر گھر بیٹھ جائیں۔
 

Back
Top