پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی جرگہ اتوارکو پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات کا حصہ نہیں تھا کیوں ؟ سراج الحق کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی سے ملاقات کر رہے تھے اورسیاسی جرگی کے رحمان ملک سمیت باقی اراکین غائب…پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کا جرگہ آج کے پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات کا حصہ نہیں تھا کیوں ؟بات وزیراعظم نواز شریف ، وزیراعلی شہباز شریف کے استعفی اور انتخبات دھاندلی کی تحقیقات کے
طریقہ کار میں الجھی ہوئی ہے-اتوارکوسراج الحق کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی سے ملاقات کر رہے تھے اورسیاسی جرگی کے رحمان ملک سمیت باقی اراکین غائب، آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اسلام آباد میں بحران کے حل تک قیام کرینگے مگر وہ واپس کراچی چلے گئے اوراعتزاز نثار تنازعہ کے بعد یہ خبریں چلوا دی گئیں کہ وہ ستمبر کے آئندہ ہفتے میں لاہور میں قیام کرینگے پارٹی کو سرگرم کرنے کے لئے ۔۔۔ اس کی اس مرحلہ پر ضرورت کیوں ؟
آصف علی زرداری نے ماضی میں جب جب بھی لاہور میں دربار لگانے کا اعلان کیا اس کی وجوہات اتنخابات کی تیاری یا مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دینا ہی ٹھہرا گو کہ وہ اپنے بار بار کے ایسے اعلانات پر خود نہ ٹھہر سکے کہ 2013ء کی انتخابی مہم سے ایسے ہی پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ غائب پائی گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔ جواز جو بھی دیا وہ الگ بحث ۔۔۔ مگر اس سے ایک چیز ثابت ہو گئی کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت خود کو بینظیر بھٹو جتنی بہادر نہیں قرار دے پائی جو جانتے ہوئے بھی کہ ان پر لیاقت باغ میں قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے جلسہ کرنے پہنچ گئیں۔ مگر موجودہ بحران میں بلاول بھٹو ٹوئیڑ پہ بیان جاری کر رہے ہیں اور پیپلزپارٹی سمیت پارلیمان میں موجود نواز شریف کے استعفی کی مخالف جماعتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نواز شریف نہ سہی جمہوریت کی حمایت میں بھی کوئی ایک ریلی بھی ملک بھر میں برپا کرنے کی روا دار نہیں -شائد اس کی وجہ یہ رہی کہ نواز شریف کی حمایت میں جو جماعتیں پہلے پہل میدان میں نکلیں ان کے نکتہ نظر سے پارلیمان میں اپوزیشن کی نوازشریف کے اقتدار کو بچانے کے لئے حامی جماعتیں تال میل نہیں رکھتیں ، شائد نواز شریف سے بڑی بھول ہو گئی کہ جلدبازی میں وہ غلط پتے کھیل گئے ، جس کا اظہار اعتزاز احسن نے اپنی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ ماسوائے محمود اچکزئی کوئی اپوزیشن میں سے نواز شریف کے اقتدار کا حامی نہیں مگر جمہوریت اور پارلیمان کو بچانے کے لئے ان کے ساتھ ہے ۔ اور آخری تجزیہ میں شائد محمود اچکزئی بھی نواز شریف کے ساتھ نہ رہے کیونکہ اچکزائی کے ڈانڈے بھی کہیں اور جا کر ملتے ہیں وگرنہ وہ بلوچستان میں گورنرشپ اور اقتدار کے مزے نہ اٹھا رہے ہوتے۔بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا کردار مثبت ہے جمہوریت کے لئے مگر میں اب تک خبروں کے بنیاد پر تراشیدہ اس تجزیہ سے اتفاق کرنے سے قاصر ہوں کہ اگر 77ء میں جماعت اسلامی کا مذاکرات میں کردار دیکھا جائے تو بعین ہی ملتا ہے مگر ان کا کردار جمہوری دوستوں کے لئے بھٹو کیخلاف اس وقت منفی ہوا جب مارشل لاء آگیا اور جماعت اسلامی ضیاء الحق کی حلیف بن گئی ۔سن77ء میں بھی ایک دن میں بحران سفر کرتا ہوا فوج کی مداخلت تک نہیں پہنچا تھا- مارچ میں انتخابات ہوئے اور سات جولائی کو جا کر مارشل لا کا اعلان ہوا اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے پی این اے کی تحریک کے خوف سے کئی شہروں میں خود فوج کو امن وامان کی ذمہ داری سنبھالنے کی دعوت دے چکے تھے۔ گو کہ وفاقی دارلحکومت سمیت ملک بھر میں نواز شریف نے فوج کو کسی سیاسی تحریک پر قابو کے لئے فوج کو 245 کے اختیارات نہیں دئیے اسی لئے فوج پارلیمنٹ میں انقلابی مارچ والوں کے گھسنے اور وزیر اعظم ہاءوس کی طرف مارچ کرنے کو روکنے کے لئے متحرک نہیں ہوئی کیونکہ فوج کو وزیرستان میں دہشتگردی آپریشن کے ردعمل اور دہشتگردوں کیخلاف ملک بھر میں آپریشن کے تناظر میں دئیے گئے ہیں۔دوسری طرف فوج کو وزیر اعظم کے سیاسی ،آئینی اور قانونی تنازعات سے بچانے کے لئے آگے نہ آنے پر جو نکتہ نظر باجگزار میڈیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے اور وزیر اعظم خود وزیر داخلہ کو پارلیمنٹ میں ایسا پراپیگنڈہ کرنے والے میڈیا چینل کا نام لیکر سفارش کرکے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس سب کے ردعمل میں فوج کا ادارہ خاموش ہے ۔ وزیراعظم سے ایک یہ غلطی بھی ہوگئی ان پارلیمانی جماعتوں کے مشورے پر جو اقتدار میں برابر کی حصہ دار ہیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی کہ فوج کو ثالثی کی دعوت دیکر پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں مکر گئے ۔پہلے انقلابیوں کیخلاف کسی خوف میں پیشگی ایکشن کے نتیجہ میں وزیراعظم ، وزیر اعلی، وفاقی و صوبائی وزراء کو مقدمہ کا سامنا تھا جس پر غیر جانبدار حلقے اس مقدمہ میں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کو شامل کرنے پر اعتراض میں کوئی پس وپیش نہیں کر رہے تھے مگر اسلام آباد میں انقلابیوں اور آزادی مارچ والوں پر پولیس ایکشن کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی کہ اب اسلام آباد میں بھی لاشیں گر گئیں اور براہ راست وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کو اس کا ذمہ دار قرار دیکر ایف آئی آر درج کرنے کے لئے پی آئی ٹی اور پی اے ٹی کے پاس مضبوط جواز ہے اور اس پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی میڈیا پر گواہی کہ صحافیوں کو انکی موجودگی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پی اے ٹی کا موقف یہ رہا کہ سانحہ ماڈل ٹاءون کی تحقیقات وزیر اعلی کے استعفی کے بغیر شفاف ممکن نہیں تو بعین اسلام آباد میں دونوں مارچوں کے آن ریکارڈ تین اور دعوی کے مطابق 18 کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیراعظم کی موجودگی میں اسلام آباد کی شفاف تحقیقات کیسے ممکن ہونے کا موقف اختیار کرسکتے ہیں۔حکومت کیخلاف کیس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کافی مضبوط کرچکے ہیں اور اس مرحلے پر شائد سپریم کورٹ کے لئے بھی مشکل ہوگا کہ وہ وزیراعظم کوریلیف دے سکے جو کہ انقلابی و آزادی دھرنا کی عدالت عظمی کے باہروالی روڈ خالی کرانے کا براہ راست آرڈر دینے میں مشکل کا شکار نظر آئی۔ جبکہ آرمی چیف کو ثالثی کے لئے پیغام دیکر پیچھے ہٹنے کے بعد نواز شریف ایک اور مسئلہ سے دوچار ہیں کہ وہ آرٹیکل 63 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے اور کیا آئی ایس پی آر اپنے جاری بیان سے پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز سپریم کورٹ میں دے پائے گی جس کے لئے عمران خان اعلان بھی کر چکے کہ وہ اب سپریم کورٹ جائیں گے۔ دوسری طرف یوم دفاع کی کسی بھی تقریب میں شامل نہ کئے جانے کے بعد وزیراعظم کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ وہ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کے دورہ میں گھروں سے بے گھرعوام کی مدد کے بجائے الٹا انہیں ان انقلابی اورآزادی مارچوں کیخلاف اپنے لئے مدد کی اپیل کر رہے ہیں ۔
طریقہ کار میں الجھی ہوئی ہے-اتوارکوسراج الحق کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی سے ملاقات کر رہے تھے اورسیاسی جرگی کے رحمان ملک سمیت باقی اراکین غائب، آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ اسلام آباد میں بحران کے حل تک قیام کرینگے مگر وہ واپس کراچی چلے گئے اوراعتزاز نثار تنازعہ کے بعد یہ خبریں چلوا دی گئیں کہ وہ ستمبر کے آئندہ ہفتے میں لاہور میں قیام کرینگے پارٹی کو سرگرم کرنے کے لئے ۔۔۔ اس کی اس مرحلہ پر ضرورت کیوں ؟
آصف علی زرداری نے ماضی میں جب جب بھی لاہور میں دربار لگانے کا اعلان کیا اس کی وجوہات اتنخابات کی تیاری یا مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دینا ہی ٹھہرا گو کہ وہ اپنے بار بار کے ایسے اعلانات پر خود نہ ٹھہر سکے کہ 2013ء کی انتخابی مہم سے ایسے ہی پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ غائب پائی گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔ جواز جو بھی دیا وہ الگ بحث ۔۔۔ مگر اس سے ایک چیز ثابت ہو گئی کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت خود کو بینظیر بھٹو جتنی بہادر نہیں قرار دے پائی جو جانتے ہوئے بھی کہ ان پر لیاقت باغ میں قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے جلسہ کرنے پہنچ گئیں۔ مگر موجودہ بحران میں بلاول بھٹو ٹوئیڑ پہ بیان جاری کر رہے ہیں اور پیپلزپارٹی سمیت پارلیمان میں موجود نواز شریف کے استعفی کی مخالف جماعتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نواز شریف نہ سہی جمہوریت کی حمایت میں بھی کوئی ایک ریلی بھی ملک بھر میں برپا کرنے کی روا دار نہیں -شائد اس کی وجہ یہ رہی کہ نواز شریف کی حمایت میں جو جماعتیں پہلے پہل میدان میں نکلیں ان کے نکتہ نظر سے پارلیمان میں اپوزیشن کی نوازشریف کے اقتدار کو بچانے کے لئے حامی جماعتیں تال میل نہیں رکھتیں ، شائد نواز شریف سے بڑی بھول ہو گئی کہ جلدبازی میں وہ غلط پتے کھیل گئے ، جس کا اظہار اعتزاز احسن نے اپنی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ ماسوائے محمود اچکزئی کوئی اپوزیشن میں سے نواز شریف کے اقتدار کا حامی نہیں مگر جمہوریت اور پارلیمان کو بچانے کے لئے ان کے ساتھ ہے ۔ اور آخری تجزیہ میں شائد محمود اچکزئی بھی نواز شریف کے ساتھ نہ رہے کیونکہ اچکزائی کے ڈانڈے بھی کہیں اور جا کر ملتے ہیں وگرنہ وہ بلوچستان میں گورنرشپ اور اقتدار کے مزے نہ اٹھا رہے ہوتے۔بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا کردار مثبت ہے جمہوریت کے لئے مگر میں اب تک خبروں کے بنیاد پر تراشیدہ اس تجزیہ سے اتفاق کرنے سے قاصر ہوں کہ اگر 77ء میں جماعت اسلامی کا مذاکرات میں کردار دیکھا جائے تو بعین ہی ملتا ہے مگر ان کا کردار جمہوری دوستوں کے لئے بھٹو کیخلاف اس وقت منفی ہوا جب مارشل لاء آگیا اور جماعت اسلامی ضیاء الحق کی حلیف بن گئی ۔سن77ء میں بھی ایک دن میں بحران سفر کرتا ہوا فوج کی مداخلت تک نہیں پہنچا تھا- مارچ میں انتخابات ہوئے اور سات جولائی کو جا کر مارشل لا کا اعلان ہوا اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے پی این اے کی تحریک کے خوف سے کئی شہروں میں خود فوج کو امن وامان کی ذمہ داری سنبھالنے کی دعوت دے چکے تھے۔ گو کہ وفاقی دارلحکومت سمیت ملک بھر میں نواز شریف نے فوج کو کسی سیاسی تحریک پر قابو کے لئے فوج کو 245 کے اختیارات نہیں دئیے اسی لئے فوج پارلیمنٹ میں انقلابی مارچ والوں کے گھسنے اور وزیر اعظم ہاءوس کی طرف مارچ کرنے کو روکنے کے لئے متحرک نہیں ہوئی کیونکہ فوج کو وزیرستان میں دہشتگردی آپریشن کے ردعمل اور دہشتگردوں کیخلاف ملک بھر میں آپریشن کے تناظر میں دئیے گئے ہیں۔دوسری طرف فوج کو وزیر اعظم کے سیاسی ،آئینی اور قانونی تنازعات سے بچانے کے لئے آگے نہ آنے پر جو نکتہ نظر باجگزار میڈیا کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے اور وزیر اعظم خود وزیر داخلہ کو پارلیمنٹ میں ایسا پراپیگنڈہ کرنے والے میڈیا چینل کا نام لیکر سفارش کرکے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس سب کے ردعمل میں فوج کا ادارہ خاموش ہے ۔ وزیراعظم سے ایک یہ غلطی بھی ہوگئی ان پارلیمانی جماعتوں کے مشورے پر جو اقتدار میں برابر کی حصہ دار ہیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی کہ فوج کو ثالثی کی دعوت دیکر پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں مکر گئے ۔پہلے انقلابیوں کیخلاف کسی خوف میں پیشگی ایکشن کے نتیجہ میں وزیراعظم ، وزیر اعلی، وفاقی و صوبائی وزراء کو مقدمہ کا سامنا تھا جس پر غیر جانبدار حلقے اس مقدمہ میں وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کو شامل کرنے پر اعتراض میں کوئی پس وپیش نہیں کر رہے تھے مگر اسلام آباد میں انقلابیوں اور آزادی مارچ والوں پر پولیس ایکشن کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی کہ اب اسلام آباد میں بھی لاشیں گر گئیں اور براہ راست وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کو اس کا ذمہ دار قرار دیکر ایف آئی آر درج کرنے کے لئے پی آئی ٹی اور پی اے ٹی کے پاس مضبوط جواز ہے اور اس پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی میڈیا پر گواہی کہ صحافیوں کو انکی موجودگی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پی اے ٹی کا موقف یہ رہا کہ سانحہ ماڈل ٹاءون کی تحقیقات وزیر اعلی کے استعفی کے بغیر شفاف ممکن نہیں تو بعین اسلام آباد میں دونوں مارچوں کے آن ریکارڈ تین اور دعوی کے مطابق 18 کارکنوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیراعظم کی موجودگی میں اسلام آباد کی شفاف تحقیقات کیسے ممکن ہونے کا موقف اختیار کرسکتے ہیں۔حکومت کیخلاف کیس پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کافی مضبوط کرچکے ہیں اور اس مرحلے پر شائد سپریم کورٹ کے لئے بھی مشکل ہوگا کہ وہ وزیراعظم کوریلیف دے سکے جو کہ انقلابی و آزادی دھرنا کی عدالت عظمی کے باہروالی روڈ خالی کرانے کا براہ راست آرڈر دینے میں مشکل کا شکار نظر آئی۔ جبکہ آرمی چیف کو ثالثی کے لئے پیغام دیکر پیچھے ہٹنے کے بعد نواز شریف ایک اور مسئلہ سے دوچار ہیں کہ وہ آرٹیکل 63 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے اور کیا آئی ایس پی آر اپنے جاری بیان سے پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز سپریم کورٹ میں دے پائے گی جس کے لئے عمران خان اعلان بھی کر چکے کہ وہ اب سپریم کورٹ جائیں گے۔ دوسری طرف یوم دفاع کی کسی بھی تقریب میں شامل نہ کئے جانے کے بعد وزیراعظم کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ وہ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کے دورہ میں گھروں سے بے گھرعوام کی مدد کے بجائے الٹا انہیں ان انقلابی اورآزادی مارچوں کیخلاف اپنے لئے مدد کی اپیل کر رہے ہیں ۔
- Featured Thumbs
- http://urdu.islamabadpolitics.com/wp-content/uploads/issue11.jpg
Last edited by a moderator: