مولے نوں مولا نہ مارے تے

Arslan

Moderator



زرداری صاحب کی بزرگی کا اعتراف ہم اُن کی کم عمری ہی سے کرتے چلے آئے ہیں۔بات پوری ہونے سے پہلے ہی ۔۔۔ ہی ہی ہی ہی ۔۔۔ نہ شروع کر دیجیے۔ہمارا مطلب یہ ہے کہ اُن کی کم عمری کے جو واقعات باوثوق ذرائع (مثلاً ڈاکٹر ذوالفقار مرزا وغیرہ) سے ہم تک پہنچے ہیں، اُن سے بھی زرداری صاحب کی بزرگی ٹپکتی تھی۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ٹپکتے ٹپکتے ساری بزرگی ٹپک گئی ہو۔ اب تو وہ بزرگوں کے بھی بزرگ ہو گئے ہیں۔خود اُنہی کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بزرگ عہدے پر رہنے کے بعد اب کسی بچگانہ عہدہ پر رہنے کا جی نہیں چاہتا۔ اب اگر وزیر اعظم بنیں گے تو بلاول بنیں گے۔اُدھر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی کچھ اسی قسم کا بیان دیا ہے کہ: راہول گاندھی کو اگلا وزیر اعظم دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ یہ جمہوریت وغیرہ کا پاکھنڈ چھوڑ کر اِن دونوں بزرگوں کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت میں اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی (زوجہ فیروز گاندھی) کی ذُرّیات کے حوالے کردیناچاہیے۔ زرداری صاحب نے ملک کے سب سے بڑے منصب یعنی صدارتی منصب سے اُترتے ہوئے اپنے کیرئیر کا اختتام فلم مولا جٹ کے ایک مکالمہ پرکیا اور (اپنے)منہ پر ہاتھ پھیرا۔ آپ نے فرمایا:مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئں مردا۔ باوثوق ذرایع سے سنا ہے کہ زرداری صاحب نے اپنے کیر ئیرکا آغاز بھی فلمی صنعت سے ہی کیا تھا۔نہیں جی نہیں! ۔۔۔ اداکاری اور زرداری؟ ۔۔۔ توبہ توبہ! سناؤنیوں میں تو ذکر کسی بہت بمبینو ٹائپ سینما کاسنا ہے۔بات ٹکٹوں کی سنی ہے۔کچھ لوگ ٹکٹوں کے رنگ بدلنے کا بھی قصہ سناتے ہیں۔پارٹی کی طرح وہاں بھی سفید ٹکٹ کو سیاہ کرنے،معاف کیجیے گا سفید و سیاہ کے مالک تھے۔ پس اگرانہوں نے اپنے موجودہ کیرئیر کا اختتام بھی فلمی ڈائیلاگ پر کیا تو اسی خطے کے ایک اور بادشاہ کی روایت پر عمل کیا، جو اپنے ماضی کو نہیں بھولا تھا اور اپنی پرانی پوستین کی اکثر و بیشتر زیارت کرتا رہتا تھا۔مگرہماری دعاتو یہی ہے کہ: مولے نوں مولانہ مارے کہ بے ڈھب ہے گرفت اُس کی۔

باپ کی نصیحت بچوں کو

کم سِنی کی عادتیں کبر سِنی تک نہیں جاتیں۔پس آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے بچوں کو اُن کے بچپن ہی میں یہ بات سمجھا دیں کہ پیسا سب کچھ نہیں ہوتا۔ پس اے میرے بچو! کبھی کوئی چیز بلیک نہ کرنا۔ کبھی اپنے باپ کے بٹوے سے رقم چوری نہ کرنا کہ یہ عادت بڑے ہو کر بھی نہیں چھوٹے گی۔ کبھی کسی مجبور سے اس کی مجبوری کا تاوان طلب نہ کرنا کہ اس سے ایک مخصوص پرسنٹیج میں کمیشن خوری کی عادت پڑ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ عادی مجرم کسی کی ٹانگ میں بم باندھنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ مالِ دُنیا سے محبت کروگے تو دوسروں کا مال چھیننے کی عادت پڑ جائے گی۔یہاں تک کہ قوم کا مال بھی چرا کر اور کنٹینروں میں لاد کر اہلِ قوم کی دسترس سے باہر جا چھپاؤگے۔ پھر خود بھی اپنی مٹی، اپنی دھرتی سے باہر نکل جاؤ گے اورگوکہ وہاں بڑے بڑے محل بناؤ گے، مگر اپنے ملک میں ایسے بُرے بُرے خطاب پاؤ گے کہ ایڈیٹر صاحب کے ڈرسے کالم نگار اشارتاً بھی اپنے کالم میں اُن کاذکر نہ کر سکے گا۔اور اے میرے بچو! کبھی خیانت نہ کرنا کہ خائن آدمی کو اگراستثنا حاصل نہ ہو تو غیر ملکی عدالتوں میں بھی رُسوا ہو سکتا ہے۔اور سب سے بڑی رُسوائی تو آخرت کی رُسوائی ہے کہ اُس رُسوائی سے استثنائیاتنی آسان نہیں۔

جنابِ مجیب الرحمٰن شامی سے معذرت


جنابِ مجیب الرحمٰن شامی لکھتے ہیں:آج سے چھہ برس پہلے کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پاکستان کے آئندہ صدر آصف علی زرداری ہوں گے۔شامی صاحب تو بزرگِ اعظم آصف علی زرداری سے بھی زیادہ بزرگ صحافی ہیں۔اُن سے ہمارا اختلاف کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی پوتا اپنے دادا سے اختلاف کرے اورکہے کہ : دادا جی! سٹھیا گئے ہو کیا؟ مگر حق تو یہ ہے کہ شامی صاحب نے حق بات نہیں کہی۔ ہم نہایت ادب و احترام سے اور بہت معذرت کے ساتھ اُن سے عرض کر یں گے کہ یہ نہ کہیے کہ ۔۔۔ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا۔۔۔آپ کا خیال شاید بڑھاپے کی وجہ سے اس طرف نہیں گیا کہ ۔۔۔ صرف ایک شخص یہ کہہ سکتا تھا ۔۔۔ بالآخر وہی ایک شخص سب پر بھاری نکلا!اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے 66برسوں میں اسکندر مرزا سے اب تک کوئی صدر کا بچہ ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی آئینی مدتمکملکرلی ہو۔ یہ منفرد اعزاز اگر ہاتھ آیا تو زرداری صاحب کے ہاتھ آیا ۔۔۔ یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ۔۔۔ (یہ مصرع بھی ایک شخص کے سوا کوئی شخص سوچ ہی نہیں سکتا تھا)۔ آئینی مدت اُس صدر نے پوری کی کہ جس کے آئین میں ۔۔۔ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔۔۔ جس کے دور میں قومی اداروں کا سربراہ مقرر کرنے سے پہلے قومی ترانے کے خالق حفیظؔ جالندھری مرحوم کا ایک مصرع بہ آوازِ بلند پکارا جاتا تھا۔۔۔ کون سب سے بڑا لٹیر اہے؟۔۔۔ جو ہو وہ ہاتھ کھڑا کرکے آواز دے
!
سوئی نہیں چبھوئی

سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہاہے کہ: مردِ آہن آصف علی زرداری نے پانچ سالہ جمہوری دور میں کسی کو سوئی تک نہیں چبھوئی۔خاتون نے بالکل ٹھیک کہا۔ کیوں کہ زرداری صاحب ایسے بھولے نہیں ہیں کہ کچے کھیل کھیلیں۔ سوئی کو، چبھونے سے پہلے، اپنی ہتھیلی اور انگلیوں کے درمیان اچھی طرح چھپانا پڑتا ہے۔ذرا سی بے احتیاطی سے اپنی ہی اُنگلیوں یا ہتھیلی میں کھُب گئی تو آدمی خود بھاؤں قاؤں کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کام بھی نہیں ہو پاتا اور بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے کہ سوئی چبھونے چلے تھے۔ مگر محترمہ فردوس عاشق اعوان کو نہ جانے کیا بات چبھی تھی کہ اُ نہوں نے برسرپریس کانفرنس روتے ہوئے ( ہچکیوں اور آنسوؤں سے روتے ہوئے) استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسی طرح شیری رحمٰن کو بھی کچھ نہ کچھ ایسا ضرور چبھا کہ وہ بھی استعفیٰ دے کر بھاگیں۔ سینیٹر رضاربانی کواﷲ جانے کیا چبھایا گیا؟ جبکہ سابق وزیراعظم افتخار رضا گیلانی کو ایسی کوئی چیز چبھائی گئی کہ بلبلاتے ہوئے ایوانِ صدر سے بھاگے۔ یہاں ہم پچھلے پانچ سالہ جمہوری دور میں ناہید خان اور ہمنواؤں کی چبھن کا تذکرہ بالکل نہیں کر رہے ہیں۔ مگر سچ ہے کہ زرداری صاحب نے توقوم کو(بس) سوئی نہیں چبھوئی۔


حوالہ ہارون الرشید کا

گزشتہ چندماہ سے ہمارے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف تھے اور ہمارے صدر جناب آصف علی زرداری۔(یہ بات بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا)۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ظہرانہ دے کر زرداری صاحب کو رُخصت کیا۔اچھا کیا(اوریہ بات بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا)یہ نئی سوچ ہے۔پرانی سوچوں والے کسی بندے نے کہا: میاں صاحب کو زرداری صاحب کا الوداعیہ کرنے کے بعد اُن کا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ہم نے کہا: کس منہ سے کریں؟ اُس نے کہا: اُسی منہ سے کریں جو اُن کی گردن کے اوپر لگاہوا ہے۔ ہماری سوئی مفاہمت پر اٹکی رہی تو اُس نے ایک قصہ سنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص آیا۔ اُس نے ایک سوئی زمین پر چبھوئی اور دوسری سوئی تاک کر ایسے ماری کہ وہ سیدھی پہلی سوئی کے ناکے میں جاگھسی۔ پورے دربار میں ہرطرف سے واہ واہ ہوگئی۔ ہارون الرشید نے پوچھا: یہ کام کتنے سال سے کر رہے ہو؟ اُس نے کہا: پچھلے پانچ سال سے! خلیفہ نے اُسے انعام و اکرام اور پُرتکلف ظہرانہ دیاپھر کارکنانِ بندی خانہ کو بلاکر حکم دیا کہ: لے جاکر بند کردو اِس بدبخت کو۔پوری قوم کا وقت اور پیسا اس نے فضول کاموں میں برباد کر ڈالا۔










Source

 
Last edited:

Back
Top