Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
دو رویے ہمارے سامنے ہیں:ایک مولانا طارق جمیل کا،جو وینا ملک جیسی خاتون کو بیٹی کہتے ہیں،اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھاتے ہیں اور دست شفقت رکھتے ہیں،اس کی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے کان میں اذان کہتے ہیں اور دوسرا مولانا فضل الرحمن کا جو ڈی چوک میں عمران خان کے دھرنے میں آئی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر مجرا کرنے کی پھبتی کستے ہیں اور ساتھ معنی خیز مسکراہٹیں بھی بکھیرتے ہیں۔ اہلِ مذہب جب سراپا دعوت ہوں تو مولانا طارق جمیل ہوتے ہیں ،جب کشمکش اقتدار میں حریف بن جائیں تو مولانا فضل الرحمن بن جاتے ہیں۔پہلا رویہ سراپا خیر ہے لیکن دوسرا رویہ ردعمل کو جنم دیتا ہے،اور رد عمل کی یہ نفسیات بالآخر معاشرے کو سیکولرزم کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔میرے جیسے عامی کے پیش نظر سوال اب یہ ہے کہ اہلِ مذہب کا اصل مقام کون سا ہے؟دعوت ؟یا اقتدار کی حریفانہ کشمکش؟
اہلِ مذہب کا بنیادی کام دعوت ہے۔انہوں نے جب میدانِ سیاست کا رخ کیا تو یہ حکمت عملی کا ایک معاملہ تھا۔کہا گیا کہ جب تک ریاست کی زمام کار نیک لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آ جاتی تب تک معاشرے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی،اس لیے اب فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ حصول اقتدار کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔بہت زیادہ نیک نیتی سے کام لیا جائے تو اسے اجتہادی غلطی کہا جائے گا اور قدرے بد گمانی شعار کی جائے تو یہ حصول اقتدار کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال قرار پائے گا۔جب اہل مذہب سیاست میں آئے تو بجائے سیاست کا آلودہ کلچر بدلنے کے وہ، الا ماشاء اللہ، اسی کلچر کا حصہ بن گئے۔چنانچہ دل پر ہاتھ رکھ بتائیے جے یو آئی کی سیاست ن لیگ اور پی پی پی کی سیاست سے کتنی منفرد اور معتبر ہے؟کسی پر سوئس اکاؤنٹس کا الزام لگا تو کسی پر شہداء کی زمینوں سمیت کئی الزامات لگ گئے۔فرق کیا رہا؟ہمارا معاشرہ ایک روایتی سوچ رکھتا ہے۔مذہب پر عمل کرنے میں بھلے اس سے تساہل ہو جائے لیکن مذہب کی بات چلے تو دل ہے کہ کھنچتا سا چلا جائے ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔لوگ اہلِ مذہب کو اخلاقی حوالوں سے دوسروں سے معتبر دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ جب عمران خان کہتے ہیںمولانا فضل الرحمن چھ روپے سستے ہو گئے تو دکھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سارا قصور عمران خان کا ہے؟مولانا نے آخر ایسی سیاست کی ہی کیوں کہ ان پر ایسے الزامات آئیں؟انہیں تو میدان سیاست اور حلقہ اقتدار میں یوں رہنا چاہیے تھا،کنول کا پھول جیسے تالاب میں رہتا ہے۔صاف اور شفاف۔وہ اس مقام سے نیچے آئے ہی کیوں؟ عمران خان ایسا ہی رویہ بھلا مولاناطارق جمیل صاحب کے بارے میں اختیار کر کے دکھائیں۔ممکن ہی نہیں۔ایسا کریں گے تو اپنی ہی نظر میں گر جائیں گے۔
مذہب خیر خواہی کا نام ہے۔اور اہلِ مذہب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے لیے خیر خواہی رکھیں۔سیاست البتہ ایک مختلف چیز ہے۔سیاست حصول اقتدار کے لیے کی جاتی ہے اور اس کا بنیادی تقاضا گرو ہ بندی ہے۔اس کا مقصود ووٹوں کا حصول ہے۔ْاس کے لیے بہت سی قباحتیں اختیار کرنا پڑتی ہیں اور وقت نے ثابت کیا کہ اہل مذہب نے یہ اختیار بھی کیں۔سیاست دوسروں کی تضحیک کر کے اپنی پراڈکٹ بیچنے کا نام ہے۔یہ تقسیم اور دھڑے بندی کے اصول پر ہوتی ہے۔جو برا آدمی آپ کی صف میں آ جائے آپ اس کے قصائد پڑھتے ہیں اور دوسری صف میں اچھا آدمی بھی ہو آپ کو برا لگتا ہے۔سیاست جب مذہب کے نام پر ہوتی ہے تو معاملات مزید گھمبیر ہو جاتے ہیں۔آپ اپنے ہر فعل کی مذہبی تعبیر کرتے ہیں اور آپ کا مخالف اسلام دشمن قرار پاتا ہے۔یہ صرف آج کا معاملہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو عمران خان کی صورت میں ایک چیلنج در پیش ہوتا ہے تو عمران خان یہودی اور امریکی ایجنٹ ہی قرار پاتے ہیں، یہ معاملہ بہت پرانا ہے۔آئی جے آئی بنی تھی تب بے نظیر بھٹو کی اسلام دوستی کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا تھا۔ انتخابی سیاست کے کمالات ہیں۔
پاکستان میں اسلامی نظام کی جدو جہد کو، اگر دیکھا جائے تو، سب سے زیادہ نقصان ان سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے جو مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہیں۔یہ بے نظیر کے حق اقتدار کی نفی کرتی رہیں تو یہ بھی اسلام کے نام پر کہ اسلام میں عورت حاکم نہیں بن سکتی اور فاطمہ جناح کی حمایت میں سامنے آئیں تو وہ بھی اسلام کے نام پر۔ان کے تضادات جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔اور افسوسناک بات یہ کہ اپنے ان تضادات کی تاویلات بھی ان جماعتوں نے بالعموم مذہب ہی سے پیش کیں۔اس سے عام آدمی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ مذہبی لوگوں کی سیاست شیخ رشید اور آصف زرداری کی سیاست سے کتنی مختلف ہے۔یہ آخر اسلام کے کون سے زریں اصولوں کی روشنی میں مولانا فضل الرحمن ہر حکومت کا حصہ بن جایا کرتے ہیں۔ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
سیاست میں مفادات کے حصول کے لیے مذہب کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سیکولر قوتیں طاقت پکڑنا شروع ہو گئیں۔مذہبی سیاست نے جب اپنے تقاضوں کے تحت مذہب کا استعمال کیا تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہو نا شروع ہو گئےَ۔اس وقت بھی مذہبی سیاست کے ناقدین بہت زیادہ ہیں۔لیکن جب مذہبی سیاست اپنے مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتی ہے تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں کبھی سیکولرزم نے قوت پکڑی تو مذہبی سیاست کا زمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔مذہبی سیاست کو آپ سیکولرزم کا ہراول دستہ کہہ سکتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب کو سیاست اور حصول اقتدار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔بلکہ اہلِ مذہب سب کے لیے سراپا خیر ہوں۔اہلِ مذہب کا اصل کردار ایک داعی کا ہے اور داعی کو سب کے لیے مہربان ہونا ہوتا ہے۔داعی کسی گروہی تقسیم یا عصبیت کا قیدی نہیں ہو سکتا۔مولانا طارق جمیل کی مثال تو مولانا فضل الرحمن کے سامنے ہے۔کیا وہ غور فرمائیں گے۔
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/مولانا-طارق-جمیل-یامولانا-فضل-الرحمن؟
اہلِ مذہب کا بنیادی کام دعوت ہے۔انہوں نے جب میدانِ سیاست کا رخ کیا تو یہ حکمت عملی کا ایک معاملہ تھا۔کہا گیا کہ جب تک ریاست کی زمام کار نیک لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آ جاتی تب تک معاشرے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی،اس لیے اب فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ حصول اقتدار کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔بہت زیادہ نیک نیتی سے کام لیا جائے تو اسے اجتہادی غلطی کہا جائے گا اور قدرے بد گمانی شعار کی جائے تو یہ حصول اقتدار کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال قرار پائے گا۔جب اہل مذہب سیاست میں آئے تو بجائے سیاست کا آلودہ کلچر بدلنے کے وہ، الا ماشاء اللہ، اسی کلچر کا حصہ بن گئے۔چنانچہ دل پر ہاتھ رکھ بتائیے جے یو آئی کی سیاست ن لیگ اور پی پی پی کی سیاست سے کتنی منفرد اور معتبر ہے؟کسی پر سوئس اکاؤنٹس کا الزام لگا تو کسی پر شہداء کی زمینوں سمیت کئی الزامات لگ گئے۔فرق کیا رہا؟ہمارا معاشرہ ایک روایتی سوچ رکھتا ہے۔مذہب پر عمل کرنے میں بھلے اس سے تساہل ہو جائے لیکن مذہب کی بات چلے تو دل ہے کہ کھنچتا سا چلا جائے ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔لوگ اہلِ مذہب کو اخلاقی حوالوں سے دوسروں سے معتبر دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ جب عمران خان کہتے ہیںمولانا فضل الرحمن چھ روپے سستے ہو گئے تو دکھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سارا قصور عمران خان کا ہے؟مولانا نے آخر ایسی سیاست کی ہی کیوں کہ ان پر ایسے الزامات آئیں؟انہیں تو میدان سیاست اور حلقہ اقتدار میں یوں رہنا چاہیے تھا،کنول کا پھول جیسے تالاب میں رہتا ہے۔صاف اور شفاف۔وہ اس مقام سے نیچے آئے ہی کیوں؟ عمران خان ایسا ہی رویہ بھلا مولاناطارق جمیل صاحب کے بارے میں اختیار کر کے دکھائیں۔ممکن ہی نہیں۔ایسا کریں گے تو اپنی ہی نظر میں گر جائیں گے۔
مذہب خیر خواہی کا نام ہے۔اور اہلِ مذہب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے لیے خیر خواہی رکھیں۔سیاست البتہ ایک مختلف چیز ہے۔سیاست حصول اقتدار کے لیے کی جاتی ہے اور اس کا بنیادی تقاضا گرو ہ بندی ہے۔اس کا مقصود ووٹوں کا حصول ہے۔ْاس کے لیے بہت سی قباحتیں اختیار کرنا پڑتی ہیں اور وقت نے ثابت کیا کہ اہل مذہب نے یہ اختیار بھی کیں۔سیاست دوسروں کی تضحیک کر کے اپنی پراڈکٹ بیچنے کا نام ہے۔یہ تقسیم اور دھڑے بندی کے اصول پر ہوتی ہے۔جو برا آدمی آپ کی صف میں آ جائے آپ اس کے قصائد پڑھتے ہیں اور دوسری صف میں اچھا آدمی بھی ہو آپ کو برا لگتا ہے۔سیاست جب مذہب کے نام پر ہوتی ہے تو معاملات مزید گھمبیر ہو جاتے ہیں۔آپ اپنے ہر فعل کی مذہبی تعبیر کرتے ہیں اور آپ کا مخالف اسلام دشمن قرار پاتا ہے۔یہ صرف آج کا معاملہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو عمران خان کی صورت میں ایک چیلنج در پیش ہوتا ہے تو عمران خان یہودی اور امریکی ایجنٹ ہی قرار پاتے ہیں، یہ معاملہ بہت پرانا ہے۔آئی جے آئی بنی تھی تب بے نظیر بھٹو کی اسلام دوستی کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا تھا۔ انتخابی سیاست کے کمالات ہیں۔
پاکستان میں اسلامی نظام کی جدو جہد کو، اگر دیکھا جائے تو، سب سے زیادہ نقصان ان سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے جو مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہیں۔یہ بے نظیر کے حق اقتدار کی نفی کرتی رہیں تو یہ بھی اسلام کے نام پر کہ اسلام میں عورت حاکم نہیں بن سکتی اور فاطمہ جناح کی حمایت میں سامنے آئیں تو وہ بھی اسلام کے نام پر۔ان کے تضادات جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔اور افسوسناک بات یہ کہ اپنے ان تضادات کی تاویلات بھی ان جماعتوں نے بالعموم مذہب ہی سے پیش کیں۔اس سے عام آدمی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ مذہبی لوگوں کی سیاست شیخ رشید اور آصف زرداری کی سیاست سے کتنی مختلف ہے۔یہ آخر اسلام کے کون سے زریں اصولوں کی روشنی میں مولانا فضل الرحمن ہر حکومت کا حصہ بن جایا کرتے ہیں۔ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
سیاست میں مفادات کے حصول کے لیے مذہب کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سیکولر قوتیں طاقت پکڑنا شروع ہو گئیں۔مذہبی سیاست نے جب اپنے تقاضوں کے تحت مذہب کا استعمال کیا تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہو نا شروع ہو گئےَ۔اس وقت بھی مذہبی سیاست کے ناقدین بہت زیادہ ہیں۔لیکن جب مذہبی سیاست اپنے مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتی ہے تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں کبھی سیکولرزم نے قوت پکڑی تو مذہبی سیاست کا زمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔مذہبی سیاست کو آپ سیکولرزم کا ہراول دستہ کہہ سکتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب کو سیاست اور حصول اقتدار کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔بلکہ اہلِ مذہب سب کے لیے سراپا خیر ہوں۔اہلِ مذہب کا اصل کردار ایک داعی کا ہے اور داعی کو سب کے لیے مہربان ہونا ہوتا ہے۔داعی کسی گروہی تقسیم یا عصبیت کا قیدی نہیں ہو سکتا۔مولانا طارق جمیل کی مثال تو مولانا فضل الرحمن کے سامنے ہے۔کیا وہ غور فرمائیں گے۔
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/مولانا-طارق-جمیل-یامولانا-فضل-الرحمن؟