
لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے حمزہ شہباز کے حلف اور گورنر کے اختیارات کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ حمزہ شہباز کے وکیل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ 14 اپریل کو تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ کے الیکشن کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے وکیل نے کہا 14اپریل کے بعد سپریم کورٹ میں صدر پاکستان نے آرٹیکل 63 کی تشریح کے لئے ریفرنس دائر کر دیا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو حکومت سے ہدایات لے کر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے پوچھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس کب بلایا جا سکتا ہے؟ منحرف ارکان کو نکال کر دوبارہ وزارت اعلیٰ کی ووٹنگ کروا لیتے ہیں۔
لارجر بنچ نے استفسار کیا کہ عدالت کی معاونت کریں اگر ہم اجلاس دوبارہ 16 اپریل کی تاریخ پر لے جائیں اور پولنگ دوبارہ ہو تو بحران سے کیسے بچا جا سکتا ہے، تحریک انصاف کے وکیل اور پنجاب حکومت ہدایات لے کر پیش ہوں، کیس کا فیصلہ آج ہی کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے پولنگ کو بھی چیلنج کیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ڈپٹی اسپیکر ہی کروائے گا کیونکہ اس پر لاہورہائیکورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے جسے چیلنج نہیں کیا گیا، ایسی صورت میں پولنگ وہی پریزائیڈنگ افسر کروائے گا جس نے 16 تاریخ کو کروائی تھی۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا حمزہ شہباز وزیراعلی نہیں ہیں، ان کی موجودگی میں الیکشن غیر آئینی ہو گا، انہیں ہٹا کر انتخابات کیلئے 10 روز کا وقت مقرر کیا جائے۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلی کے دوسرے انتخابات میں 25 اراکین کو نکال کر انتخابات کروانے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے ایک روز کی مہلت مانگتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک دن اور دے دیں تاکہ وزیر اعلی کو تمام صورتحال سے آگاہ کر دیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مہلت نا دی جائے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مہلت دیتے ہوئے کل تک سماعت ملتوی کردی۔