
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کروانے کا حکم دینےوالوں سے متعلق بڑا انکشاف کردیا ہے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس آج چیئرمین قائمہ کمیٹی و وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کو ایک بار پھر موخر کر دیا گیا۔ اس دوران ملک میں انٹرنیٹ سروسز کی صورتحال پر بھی بحث ہوئی۔
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے اجلاس میں حلف اٹھانے کے بعد کہا کہ میں وضو میں ہوں اور میں موجودہ انٹرنیٹ کی صورتحال کے حوالے سے اپنے پچھلے بیانات پر قائم ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اگست 2024ء میں جاری کردہ معلومات کے مطابق 7 میں سے 4 سب میرین کیبلز کام کر رہی تھیں، جبکہ اکتوبر 2024ء میں ایک اور کیبل کی درستگی کی خبر ملی تھی۔
حفیظ الرحمان نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے احکامات عدالتوں، وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کی جانب سے آتے ہیں اور اگر ان کا ادارہ قانون کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری ان پر نہیں ہو گی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ گزشتہ 10 سالوں میں پاکستان میں کوئی نئی سب میرین کیبل نہیں آئی۔
اس موقع پر وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے انٹرنیٹ بند ہونے کے نتیجے میں ملکی ترقی کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں مانتی ہوں کہ ہمیں بلاوجہ عوامی نگرانی نہیں کرنی چاہیے، لیکن جہاں ضرورت پیش آتی ہے، وہاں نگرانی کرنا لازمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک مہینے میں پاکستان نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کی ہے، جو کہ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انٹرنیٹ سروسز میں بنیادی مسائل حل ہو چکے ہیں۔
مشاورتی اجلاس کے دوران شزہ فاطمہ نے مزید کہا کہ حکومت اسٹار لنک کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ خدمات فراہم کی جا سکیں۔ ان کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ کے حوالے سے کوئی بڑے مسائل موجود نہیں اور حکومت اس سلسلے میں منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔
اجلاس کے آخر میں چیئرمین پی ٹی اے نے واضح کیا کہ انفراسٹرکچر پر کیے گئے اخراجات کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے، تاکہ سسٹم کی بہتری کے لئے بہتر فیصلہ کیا جا سکے۔
- Featured Thumbs
- https://i.imghippo.com/files/Akm9767TQs.jpg