usman.ghazi
New Member
تحریر:عثمان غازی
ملالہ کے پاکستان میں ہر داڑھی والا دہشت گرد ہوگا، ہر ٹوپی والے پر زمین تنگ کردی جائے گی، برقعے والیوں کے بدن سے برقعے نوچ لیے جائیں گے، ملالہ کے پاکستان میں گھر گھر ڈرون حملے ہوں گے، پاکستان امریکی کالونی بن جائے گا، ملالہ کے پاکستان میں صرف اسی کا اقبال بلند ہوگا جوامریکا بہادرکا وفادار ہوگا
اور ایسا کیوں نہ ہو کیوں کہ ملالہ کا آئیڈیل اوباما ہے، سفید گھر کے اس کالے آدمی کو پسند کرنےکے جرم میں تو طالبان نے تمام اسلامی روایات اور پختون کلچر کو بالائے طاق رکھ کر ملالہ کو نشانہ بنایا ہے، خوشحال پبلک اسکول کی اس 14سالہ معصوم ملالہ کو 2009سے قبل کوئی بھی نہیں جانتا تھا، جانتے بھی کیسے!ہمارے یہاں کی روایت ہے کہ جاننے کا عمل ان کے در سے ہوکر گزرتا ہے، پی ٹی وی کے نو بجے کے خبرنامے میں آجانے سے کوئی ہیرو نہیں بن جاتا، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی میں آنا پڑتا ہے جناب! اورملالہ بھی ایسے ہی ہیرو نہیں بن گئی، نیویارک ٹائمز نے پورے 32 منٹ اور 17 سیکنڈ کی ویڈیو بنائی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کے اتنے بڑے اخبار میں ہمارے صدر محترم کی سنگل کالم خبر لگ جائے تو ایوان صدر کا سیکریٹری صبح صبح صدر صاحب کا دروازہ بجا دیتا ہے، نیویارک ٹائمز والے اتنا بڑا کام کردیں اور پاکستان میں کچھ نہ ہو ۔ ۔ ۔ نہ جناب! ملک کی ساکھ بھی آخر کوئی چیز ہے ۔ ۔ ۔ حکومت نے ایسے ہی تو ملالہ کو قومی اعزاز سے نہیں نوازاہے
ملالہ کے پاکستان میں ہر داڑھی والا دہشت گرد ہوگا، ہر ٹوپی والے پر زمین تنگ کردی جائے گی، برقعے والیوں کے بدن سے برقعے نوچ لیے جائیں گے، ملالہ کے پاکستان میں گھر گھر ڈرون حملے ہوں گے، پاکستان امریکی کالونی بن جائے گا، ملالہ کے پاکستان میں صرف اسی کا اقبال بلند ہوگا جوامریکا بہادرکا وفادار ہوگا
اور ایسا کیوں نہ ہو کیوں کہ ملالہ کا آئیڈیل اوباما ہے، سفید گھر کے اس کالے آدمی کو پسند کرنےکے جرم میں تو طالبان نے تمام اسلامی روایات اور پختون کلچر کو بالائے طاق رکھ کر ملالہ کو نشانہ بنایا ہے، خوشحال پبلک اسکول کی اس 14سالہ معصوم ملالہ کو 2009سے قبل کوئی بھی نہیں جانتا تھا، جانتے بھی کیسے!ہمارے یہاں کی روایت ہے کہ جاننے کا عمل ان کے در سے ہوکر گزرتا ہے، پی ٹی وی کے نو بجے کے خبرنامے میں آجانے سے کوئی ہیرو نہیں بن جاتا، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی میں آنا پڑتا ہے جناب! اورملالہ بھی ایسے ہی ہیرو نہیں بن گئی، نیویارک ٹائمز نے پورے 32 منٹ اور 17 سیکنڈ کی ویڈیو بنائی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کے اتنے بڑے اخبار میں ہمارے صدر محترم کی سنگل کالم خبر لگ جائے تو ایوان صدر کا سیکریٹری صبح صبح صدر صاحب کا دروازہ بجا دیتا ہے، نیویارک ٹائمز والے اتنا بڑا کام کردیں اور پاکستان میں کچھ نہ ہو ۔ ۔ ۔ نہ جناب! ملک کی ساکھ بھی آخر کوئی چیز ہے ۔ ۔ ۔ حکومت نے ایسے ہی تو ملالہ کو قومی اعزاز سے نہیں نوازاہے
آج کل اخبارات میں خبریں چھپ رہیں ہیں کہ ملالہ نے تعلیم کے لیے بڑا کام کیا، میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے تعلیم کے حوالے سے ملالہ کا کوئی چھوٹا موٹا پراجیکٹ ہی مل جائے، وہ تو خیر نہ مل سکا. . . . . تعلیم کے فروغ کا کوئی ایک کارنامہ نہ ہونے کے باوجود ملالہ نے اتنا بڑا نام بنالیا ۔ ۔ ۔ خیر اب ایسا بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ گل مکئی کے نام سے ملالہ نے ڈائری کی پوری 10قسطیں لکھی ہیں، 11سال کی عمر میں سوات کے خوشحال پبلک اسکول کی آٹھویں جماعت کی طالبہ نے وہ کردکھایا جو آج او لیول کے بچے بھی نہیں کرسکتے، دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ خوشحال پبلک اسکول کے دوسرے طلبہ بھی ملالہ کی قابلیت کے معیار تک نہیں پہنچ پائے، اسکول انتظامیہ کا یا تو تمام طلبہ کے ساتھ یکساں رویہ نہیں تھا یا پھر گل مکئی کے پاپا کا اسکول ہونے کے باعث ملالہ پر کچھ زیادہ ہی محنت کی گئی تھی، اس سارے قضیے میں مجھے بی بی سی کے رپورٹر کی بات سب سے زیادہ بری لگی، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں جنگ کے دنوں میں ملالہ کی ڈائری اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ریکارڈ کرکے لاتا تھا، اس مشن امپوسیبل میں ان رپورٹرصاحب کے ہمراہ ان کی بچی بھی ہوتی تھی تاکہ یہ بلکل ہی جاسوس نہ لگیں، بی بی سی کے اس رپورٹر کی بات تو ملالہ کا یہ اکلوتا اعزاز بھی چھیننے کے مترادف ہے، اگر ملالہ نے ڈائری بھی خود نہیں لکھی تو آخر ایسا کیا کیا ہے جو یہ اتنی پاپولر ہے؟ویسے کسی کے مشہور ہوجانے کے لیے اتنا کافی ہے کہ طالبان اس پر حملہ کردیں، طالبان نے ملالہ کے سر اور گردن پر گولی نہیں چلائی بلکہ پاکستانیوں کے جذبات پر حملہ کیا ہے، احساس کو کچلا ہے، طالبان کا نام 1995 میں پہلی دفعہ افغانستان میں منصہ شہود پر آیا، 2011 میں طالبان حکومت کاخاتمہ ہوا، پھر پاکستان میں طالبان کا نام سنا جانے لگا، اس سارے دورانئے میں ایک ایسی خبر نہیں آئی کہ طالبان نے عورت یا کسی بچے کو نشانہ بنایا ہو، سوات میں عورت کو کوڑے مارنے کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی، وہ بھی جعلی نکلی، میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملالہ نے کچھ نہ کرتے ہوئے ایسا کیا کردیا کہ طالبان نے اس کو گولی مارنے کے لیے نہ صرف ان تمام اسلامی روایات کوبالائے طاق رکھ دیا کہ جس کے نفاذ کی یہ لوگ بات کرتےہیں بلکہ پختون کلچر اور قبائلی ضابطوں کی بھی دھجیاں اڑادیں ۔ ۔ ۔ ملالہ میں ایسا تھا کیا جو طالبان نے اپنی تاریخ پر پانی پھیر دیا!بات خاصی عجیب سی ہے،طالبان قیادت کو اس کا جواب دینا ہوگالوگ تو بڑ بڑ کرتے رہتے ہیں، ملالہ پر حملے کے شبہے میں جب چار انتہائی اہم ملزمان کوگرفتار کیا گیا، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں تو ایک بڑ بڑ کرنے والے صاحب میرے کان میں آکر کہنے لگے کہ صاحب ملالہ کے ابا حضور نے اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں طے کرنے سے انکار کردیا تھا، جس پر ان کے رشتے داروں نے مشتعل ہوکر ملالہ کو گولی ماردی، اب بڑ بڑ کرنے والوں کی بات کا کیا بھروسہ ۔ ۔ ۔ میں تو ایسی باتوں پر کان نہیں دھرتا، ویسے اگر ایسا کچھ تھا بھی تو ملالہ کے والد ضیاء الدین صاحب کو افہام وتفہیم سے معاملات سلجھانے چاہیے تھے، ٹھیک ہے ملالہ رچرڈ ہالبروک سے مل آئی ہے، اس کی حیثیت میں نمایاں فرق آگیا ہے، اتنی ہونہار بیٹی کا ہرکسی سے رشتہ ممکن بھی نہیں مگرمعاملات میں شدت پسندی کوئی اچھا عمل نہیں ہےہٹلر نے اپنی سوانح حیات میں یہودیوں کے تخلیقی و تجریدی ذہن کی تعریف کی ہے، ہٹلر کا کہنا تھا کہ آرٹ کے شعبے میں ان کا دماغ بہت تیز چلتا ہے، نیویارک ٹائمز کے جس صحافی نے ملالہ کے اوپر ڈاکومنٹری بنائی، اس کو دیکھ کر میں بھی ہٹلر کی طرح سوچنے لگا ہوں، اب پتہ نہیں یہ بات پڑھ کر برطانیہ والے مجھے ویزہ دیں گے یا نہیں تاہم یہ سچ ہے کہ ایڈم بی ایلک نے کمال کی ڈاکومنٹری بنائی ہے، اس ڈاکومنٹری میں سب کچھ اچھا ہے، بس جب ملالہ پاک فوج کا مذاق اڑاتی ہے تو مجھے بہت برا لگتا ہے، آرمی کا ظرف ہے کہ وہ لڑکی جس کے ذریعے پاک فوج کا تمسخر اڑایا گیا ہو، اس کے علاج و معالجے کے لیے مثالی کام کر رہی ہے، نیویارک ٹائمز کی ڈاکومنٹری میں ایک سین ہے کہ جب ملالہ واپس سوات آتی ہےتو اس کا اسکول تباہ ہوچکا ہوتا ہے، اپنے تباہ حال اسکول کو عسکری بنکر کی شکل میں دیکھ کر ملالہ سوچتی ہے کہ یہاں آخر کون تھا، ایک کرسی پر نقش فوجی بوٹ سے ملالہ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اسکول پاک آرمی کے قبضے میں تھا، ملالہ کوایک طالبہ کی ڈائری بھی ملتی ہے، اس میں ایک فوجی نے گھٹیا عشقیہ اشعار لکھے ہوتے ہیں، ملالہ فوجی جوان کی نالائقی پر ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ اس چھوٹی بچی کو کیا پتہ کہ عشق کیا ہوتاہے، ملالہ اس تباہی کو دیکھ کر آخر میں کہتی ہے کہ پاکستان کی فوج کو شرم آنی چاہیے ۔ ۔ ۔ آپریشن بھی پاک آرمی کرے، قربانی بھی پاک آرمی دے اور شرم بھی پاک آرمی کرے ۔ ۔ ۔ ملالہ بیٹی! کیا یہ تنگ نظری نہیں ہے؟نیویارک ٹائمز کی اس ڈاکومنٹری میں ایک بات دیکھ کر میرا خون غیرت سے ابلنے لگا، پوری ڈاکومنٹری میں ملالہ کی والدہ کا چہرہ نہیں دکھایا گیا، ہلتے پردے سے یہ باور کرایا جاتا کہ یہاں کوئی خاتون ہیں، یہ پختون کلچر، قبائلی روایات اور اسلامی اصولوں کی ایک آبرومندانہ جھلک تھی،32منٹ اور 17سیکنڈ کی اس پوری ڈاکومنٹری میں ملالہ کی والدہ کا چہرہ کہیں نظر نہیں آیا تاہم رچرڈ ہالبروک کے سامنے انہوں نے اسلامی اصولوں، قبائلی روایات اور پختون کلچر کو سائیڈ پر رکھ دیا، نہ میں قبائلی ہوں اور نہ پختون ۔ ۔ ۔ مسلمان بھی کچا پکا سا ہوں تاہم اس ثانیے میں نے اپنی غیرت کے منہ پر تھپڑ لگتے محسوس کیےیہ سچ ہے کہ جس دن ملالہ پر حملہ ہوا وہ ساری رات میں نے بہت کرب میں کاٹی تھی، اگلی صبح میں نے بھی فیصلہ کرلیا تھاکہ مجھے ملالہ کا پاکستان چاہیے، اس ملالہ کے پاکستان کی تلاش میں میں کافی کنفیوژ ہوگیا، یہاں تک کہ میں ملالہ کا آئیڈیل صحیح معنوں میں طے نہیں کرپایا، ملالہ جب اپنا ایوارڈ لینے کے لیے گیلانی صاحب سے ملی تو اس نے بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل کہا، وزیراعلی خیبرپختونخواہ امیر حیدرخان ہوتی سے ملی تو باچا خان کو اپنا آئیڈیل بنا لیا، رچرڈ ہالبروک سے ملتے ہی اوباما ملالہ کے آئیڈیل ہوگئے، قرین قیاس یہی ہے کہ اوباما ملالہ کے آئیڈیل ہوں گے کیوں کہ انہوں نے ملالہ کو اپنی بیٹی بھی قرار دے دیا ہے جب کہ شہید بی بی اور باچا خان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آی