
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد متعدد میڈیا ہاؤس بند ہونے سے ہزاروں میڈیا ورکرز بیروزگار ہو چکے ہیں۔ افغان صحافیوں کے مطابق یہ ادارے طالبان کی جانب سے عائد کردہ سنسر شپ اور مبینہ تشدد کے واقعات اور مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوئے۔
میڈیا اداروں کی بندش کی وجہ سے خواتین صحافی بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور اُن میں سے بیشتر خواتین اب صرف گھروں تک ہی محدود ہیں تاہم بڑی تعداد میں مرد صحافی بھی بیروزگار ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک افغان ٹی وی اینکر موسیٰ محمدی کی تصویر وائرل ہے، جس میں وہ سڑک کنارے سموسے بیچتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ موسیٰ محمدی برسوں سے میڈیا کا حصہ تھے تاہم افغانستان میں سنگین معاشی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی روزمرہ ضرورتوں کیلئے سموسے بیچ رہے ہیں۔
افغان صحافی بلال سروری نے وائرل تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے دور حکومت میں مختلف پیشوں کے ملازمین بیروزگار ہوگئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ خواتین اساتذہ منہ ڈھانپ کر بھیک مانگتی ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1537018417726640128
وائرل تصویر نے افغان نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل احمد اللہ واثق کی توجہ بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ وہ سابق ٹی وی اینکر اور رپورٹر کو اپنے محکمے میں تعینات کریں گے، ہمیں تمام افغان پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ افغان طالبان نے خواتین ٹی وی میزبانوں اور اسکرین پر آنیوالی دیگر خواتین کیلئے چہرے کو ڈھانپنے کا حکم بھی دیا تھا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/11afghananchor.jpg