مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا۔

syed01

MPA (400+ posts)
nyazi.jpg


روف کلاسرا:ابھی میانوالی کا طویل سفرکر کے گھر لوٹا ہوں۔ رات بیت چکی ہے اور دل بہت افسردہ ہے۔ کل نیند سے جاگ تو موبائل فون پر ایک میسیج دیکھ کر جان نکل گئی۔ دوست نے لکھ بھیجا تھا کہ ڈاکٹر شیر افگن نیازیکا نوجوان بھتیجا اور سابق ایس پی انوسیٹیگیشن سرگودھا حمید خان نیازی کا نوجوان بیٹا خرم خان نیازی رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا تھا۔ یوں لگا کہ سانس ایک لحمے کے لیے رک سا گیا تھا۔ شاید خواب دیکھ رہاہوں۔ آنکھیں مل کر دوبارہ پڑھا کہ شاید۔۔۔ لفظوں نے مجھے دھوکا دینے سے انکار کر دیا۔جب منگل کی دوپہر دوبجے میانوالی پہنچا تو ایک بات دماغ پر سوار تھی کہ انسان بھی کیا چیز ہے۔ میں کتنی دفعہ اس میانوالی سے اپنے شہرلیہ جانے کے لیے گزرا اور کبھی یہاں نہیں رکا کہ خرم خان سے ہی مل لوں جو وہاں ایک بنک میں مینجر تھا۔ آج جب وہ منوں مٹی تلے جا لیٹا تھا تو میں اتنی دور سے سب کام چھوڑ کر اس کے گھر جارہا تھا۔ اپنی ذہنی اور نفسیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش میں ناکام رہاکہ شاید زندوں کی قدر کوئی نہیں کرتا۔ تو کیا اپنی قدر کرانے کے لیے مرنا ضروری ہے ؟ جب ڈاکٹر شیر افگن اور خرم کے دکھی والد حمید خان کے ساتھ ہاتھ دعا کے لیے کھڑے کیے تو یادوں کا ایک ریلہ حملہ آور ہوا اور میں اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی بہتا گیا۔ یہ 2002 کی بات ہے۔ میں ان دنوں اسلام آباد میں رپورٹر تھا اور مجھے نیا نیا سیاسی رپورٹنگ کا شوق ہو رہا تھا۔ جنرل مشرف کی بنائی ہوئی پارلیمنٹ وجود میں آچکی تھی اور خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ ڈاکٹر شیر افگن نیازی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر اب جنرل مشرف کے نامزد کردہ وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کو ووٹ دینے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ میں نے ایک خبر بھی فائل کر دی تھی۔ شام کا وقت تھا کہ دو نوجوان میرے جنگ پلازہ واقع دفتر میں داخل ہوئے۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ ایک تنویر ملک اور دوسرے خرم خان نیازی تھے۔ خوبصورت پٹھان خرم ڈاکٹر شیر افگن کا نوجوان بھتیجا نکلا۔ تنویر ملک ایک سمجھدار نوجوان تھا اور شیر افگن کے ساتھ کئی برسوں سے کام کر رہا تھا۔ دونوں کا خیال تھا کہ میں اگر ڈاکٹر شیر افگن سے مل کر ان کا پوائنٹ آف ویو بھی سن لوں تو مہربانی ہوگی۔ اور یہاں سے ڈاکٹر شیر افگن، تنویر ملک اور خرم خان سے ایک طویل رفاقت کا سفر شروع ہوا۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر شیر افگن کا نوجوان بیٹا بیرم خان جس کی عمر صرف انتیس برس تھی، اسلام آباد میں کار کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا ، جس نے ڈاکٹر شیر افگن کی کمر توڑ دی تھی۔ بیرم خان کی شادی اپنے کزن خرم خان کی بہن سے ہوئی تھی اور یوں ایک ہی خاندان تباہ ہو گیا تھا۔ بیرم خان کی ایک سال کی چھوٹی سی بیٹی تھی۔ میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب بینظیر بھٹو نے آپ کو اتنی عزت دی تھی اور آپ نے پھر بھی اس کی پارٹی چھوڑ دی؟ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر مجھے دیکھتے رہے اور پھر بولے پوری بات سننا چاہتے ہو۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا۔ بولے بیرم خان میرا سیاسی جانشین تھا۔ اس کی موت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میانوالی میں ہر آنکھ اس کے لیے روئی کیونکہ وہ سب کا لاڈلہ تھا۔ سب نے پوچھا ڈاکٹر صاحب بینظیر کا فون تعزیت کے لیے نہیں آیا۔ وہ چپ رہے کہ بیٹے کی موت کا غم مناتے یا پھر بی بی کے فون کا انتظار کہ وہ دوبئی سے فون کرکے تعزیت کریں گی۔ ایک دوپہر بتایا گیا کہ بی بی آج فون کریں گی لہذا فون کھلا رکھا جائے۔ سارا دن فون خالی رہا لیکن بی بی کا فون نہ آیا۔ میانوالی کے روایتی علاقے میں یہ بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے کہ آپ کسی کے گھر تعزیت کے لیے نہ جائیں۔ پھر کیا رشتہ رہ جاتا ہے ؟ تاہم ڈاکٹر صاحب طعنے سن کر بھی چپ رہے۔ اگلے دن فون کی گھنٹی بجی تو حمید خان نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ملٹری سیکرٹری نے بتایا کہ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف ڈاکٹر شیر افگن سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ حمید خان نے اپنے بھائی کو بتایا تو اپنے بیٹے کے غم میں ڈوبے ہوئے شیر افگن کو یاد تھا کہ وہ جنرل مشرف کو صدر نہیں مانتے اور بھائی سے کہا کہ کہہ دو کہ وہ انہیں صدر نہیں مانتے اور ان سے بات نہیں کریں گے۔ حمید خان نے یہ بات ملٹری سیکرٹری کو بتائی تو اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر بھی ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا کہ وہ انہیں آرمی چیف بھی نہیں مانتے۔ اس پر ملٹری سیکرٹری نے کہا پرویز مشرف بات کرنا چاہتے ہیں، تو شیر افگن نے فون پکڑ لیا۔ جنرل مشرف بولے ڈاکٹر صاحب میں یہ فون ایک باپ کے طور پر کر رہا ہوں کہ آپ کے نوجوان بیٹے کی کار حادثے میں موت نے مجھے بہت دکھی کیا ہے اور میں نے اظہار تعزیت کے لیے فون کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔ ایک پٹھان کو یہ فون کال کر کے جنرل مشرف نے خرید لیا تھا جو اپنی پارٹی کے خلاف طعنے سن کر تنگ آیا ہوا تھا اور اس پر اپنے علاقے اور خاندان کا دباؤ تھا کہ ایسی پارٹی میں رہنے کا کیا فائدہ جو اس کے نوجوان بیٹے کی موت پر دکھ کا اظہار تک نہ کر سکے۔ ڈاکٹر شیر افگن دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک پارلیمنٹ لاجز میں رہائش پذیر رہے اور وہ بھلا کون سی رات ہوگئی جب میں ان کے فیلٹ میں نہ گیا ہو اور میری ان سے جنرل مشرف کو جوائن کرنے پر لڑائی نہ ہوئی ہو۔ رات گئے میں ان سے لڑ بھڑ کر لوٹ آتا اور ان کا نوجوان بھتیجا خرم خان میرا ہم نوا ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس جب ایک فوجی کا ساتھ دینے کے جواز ختم ہوجاتے، تو پھر ان کی آنکھوں سے چند آنسو بہہ پڑتے اور کہتے رؤف لالہ ، بیرم کی موت نے مجھے اندر سے مار دیا ہے۔ میں کمزور ہوگیا ہوں۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے۔ میں وہ شیرافگن نہیں رہا جس نے جنرل ضیاء کو انیس سو پچاسی کی اسمبلی میں اتنا تنگ کیا تھا کہ اسے باقاعدہ کیس کر کے اسمبلی کی ممبرشپ ختم کرانا پڑی تھی۔ شیر افگن بوڑھا ہو چکا تھا۔ ایک آمر کے خلاف لڑنے والا شیر افگن دوسرے آمر کا محافظ بن چکا تھا۔ میں واحد صحافی تھا جس کی ہر بات وہ برداشت کر جاتے۔ ان کے دوسرے بیٹے امجد خان سے بھی میری دوستی بڑھ گئی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب کے دل سے بیرم خان کی موت نہ نکل سکی۔ بیرم کا دکھ دور کرنے کے لیے وہ اپنی یتیم پوتی کو ہر وقت گلے سے لگائے رکھتے۔ بہت جلد میں نے محسوس کیا کہ خرم خان میں نوجوان ہونے کے باوجود سیاسی سمجھ بوجھ بہت تھی اور وہ سیاسی طور پر زیادہ میچور تھا۔ میرا خرم خان سے تعلق بڑھتا چلا گیا اور ہر وقت ساتھ رہتے۔ ڈاکٹر شیر افگن کے داماد افراز خان میں بھی سیاست کو سمجھنے کی صلاحیت بہت تھی۔ یوں میرا زیادہ تر وقت خرم ، آفراز خان اور تنویر ملک کے ساتھ گزرتا جب کہ امجد خان میانوالی میں نائب ناظم تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہونا شروع ہوگیا تھا کہ ڈاکٹر شیر افگن کی زندگی میں تلخیاں بڑھ رہی تھیں۔ وہ لیو ٹالسٹائی کے ناول اینا کریننا کے اس پہلے جملے کی خوبصورت مثال بننا شروع ہوگئے تھے کہ ہر خوشحال گھرانا ایک جیسا لگتا ہے، جب کہ ہر دکھی گھر کا اپنا اپنا رونا ہوتا ہے۔ جب ان پر جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر تنقید بڑھنا شروع ہوئی تو بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ ان کے اپنے اندر کیا الاؤ جل رہے ہیں۔ میں نے کئی دفعہ رات گئے ان کے فلیٹ میں ان کے آنسو گرتے دیکھے۔ جوان بیٹے کی موت نے ان کا حشر کر دیا تھا اور وہ باہر کی دنیا کے سامنے بہادر بننے کی ادکاری کر تے تھے۔ ان میں خود ترسی بڑھتی جارہی تھی اور بیرم خان کی موت نے اس عمل کو تیز کر دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ بھی ان کا تعلق بڑھتا چلا گیا ۔ میں نے اٹھارہ ستمبر دوہزار چھ کو لندن کے لیے فلائٹ پکڑنی تھی اور وہ اس وقت وزیرپارلیمانی امور بن چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس رات سرگودھا میں اپنے اسی بھتیجے خرم خان کے ولیمے میں شریک تھے اور انہیں پتہ چلا کہ صبح میری فلائٹ ہے تو انہوں نے تنویر ملک کو کہا کہ رؤف کو کہو رات کو اس وقت تک نہیں سونا جب تک وہ اسلام آباد میرے گھر پر آکر مجھے الوداع نہیں کر لیتے۔ میں نے لاکھ کہا کہ وہ اتنی تکلیف نہ کریں ۔ خرم خان کا ولیمہ نہ چھوڑ کر آئیں۔ ڈاکٹر صاحب نہ مانے اور رات دو بجے سیدھے میرے گھر آئے اور ایک گھنٹہ بیٹھ کر چلے گئے۔ میری ملاقات ان سے ایک سال بعدستمبر دوہزار سات میں اس وقت ہوئی جب میں لندن سے نواز شریف کے ساتھ جہاز پر دس ستمبر دو ہزار سات کو اسلام آباد آیا۔ نواز شریف کے لندن دفتر کے اکاونٹنٹ افضال کو آئی ایس ائی نے نواز شریف کے ساتھ آنے کی وجہ سے اٹھا لیا تھا ۔ ان کا کزن اور خوبصورت انسان دوست عمران میرا لندن میں دوست بن چکا تھا ۔ اس کا پریشان حال فون آیا کہ رؤف بھائی اس کو رہا کرائیں کیونکہ اافضال کے بچے بہت پریشان ہیں۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ کس کے پاس جاؤں اور کیا کروں۔ فورا ڈاکٹر شیر افگن کا خیال آیا اور ان کے دفتر دوڑا چلا گیا۔ سن کر کہنے لگے کہ نواز شریف نے اپنے دور میں میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا لیکن رؤف لالہ تمہیں انکار نہیں کر سکتا۔ فون اٹھایا اور ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نصرت کو فون کیا کہ وہ فورا افضال کو رہا کریں۔ اس نے لیت و لعل سے کام لینے کی کوشش کی تو کہا اگر آپ رہا نہیں کریں گے تو میں جنرل مشرف کے پاس جارہوں۔ ابھی میں ڈاکٹر صاحب کے دفتر بیٹھا تھا کہ عمران کا لندن سے فون آگیا کہ افضال کو آئی ایس آئی نے چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی کا شکریہ ادا تو کردیں۔ بولے رؤف لالہ کس بات کا شکریہ کروں کہ ایک بے قصور کو اٹھا لیا تھا اور اب رہا کر کے کوئی احسان کیا ہے ؟ لندن واپسی پر ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ کوئی بڑی خبر تو دیں کہ ایک سال بعد لوٹا ہوں۔ کہا کل اس وقت آجانا۔ اگلے دن کابینہ کی میٹنگ تھی اور اس میں این آر آو پر بریفنگ کے بعد منظوری ہونی تھی۔ سارا این آر او ڈاکٹر صاحب کے پاس پڑا تھا۔ مجھے اس کی ایک کاپی دی اور کہا کہ میں کابینہ کو بریف کرنے جارہا ہوں اور تم بریک کردو۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ تو کابینہ۔۔۔مسکرائے اور کہا رؤف لالہ کابینہ کی فکر نہ کرو۔ آم کھاؤ۔ اس وقت جیو ٹی وی پر کامران خان اس پر موضوع پر سپیشل ٹرانسمشن کر رہے تھے۔ انہیں پیغام دیا کہ پورا این آر او کا مسودہ کابینہ میں پیش ہونے سے پہلے مل گیا ہے ۔۔۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے دفتر سے ہی ان کے فون پر ہی کامران خان کو این آر او کی کہانی سنائی۔ جب ڈاکٹر صاحب فائل اٹھائے کابینہ میں داخل ہوئے تو شوکت عزیز اور دیگر وزراء جیو ٹی وی پر میری تصویر کے ساتھ این آر او کو کابینہ میں آنے سے پہلے سن کر حیران ہو رہے تھے کہ کس نے یہ لیک کر دیا تھا۔ کسی کو ڈاکٹر شیر افگن پر شک نہیں ہوا اور خود ہی سب کو حیران دیکھ کر کہا کہ بھائی میں خود رؤف لالہ کو یہ مسودہ دے کر آرہا ہوں۔ سب نے پوچھا آپ نے یہ کیا کیا ؟ کہا رؤف میرا لالہ ہے۔ اسے لندن سے ایک سال بعد واپسی پر بڑی خبر چاہیے تھی لہذا میں نے دے دی۔ اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ سب چپ چاپ شیر افگن کو دیکھتے رہے !! یہ وہ شیر افگن تھا جس کے اسی نوجوان بھتیجے اور اپنے دوست خرم خان کی اچانک موت کی تعزیت کے لیے اب میں ہاتھ پھیلا کر بیٹھا تھا۔ اچانک کسی نے ایک چار سالہ بچی کو دیکھ کر مجھے بتایا کہ وہ پیاری سی بچی اس کی بیٹی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ خرم نے سرگودھا سے فون کر کے مجھے اپنی اسی بیٹی کی پیدائش کا بتایا تھا اور وہ بہت خوش تھا۔ وہ اپنی کزنز کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس معصوم کو کوئی پتہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے۔۔ میں نے اسے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر پیار کیا۔ نام پوچھا۔۔۔وہ بتا کر بھاگ گئی اور دو بارہ کھیلنے لگی۔ ڈاکٹر شیر افگن چپ چاپ قریب بیٹھے تھے۔ اچانک پتہ نہیں انہیں کیا خیال آیا کہ مجھے کہا رؤف لالہ بیرم کی بیٹی کو ملے ہو ؟ میرے ذہن میں چھ سال قبل کی ایک چھوٹی سی بچی آگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے پیاری سی ایک چھ سال کی بچی کو آواز دی۔ یہ وہ بچی نہیں تھی جو میں نے چھ سال قبل پارلیمنٹ لاجز میں شیر افگن کی گود میں دیکھی تھی۔ وقت بدل آگے بڑھ گیا تھا۔ وہ بچی خاموش اور اداس چہرے کے ساتھ آکر اپنے بوڑھے دادا کے قریب بیٹھ گئی۔ اچانک بوڑھے شیر افگن نے اپنی اس پوتی کو گلے لگایا اور آنسو آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئے۔ ایک بیٹی باپ کو چھ ماہ کی عمرمیں گنوا چکی تھی تو ایک باپ انتیس سال کا نوجوان بیٹا۔۔ ایک بیٹی اور ایک باپ کا دکھ اکھٹے ہو گئے تھے ! دو بھائیوں نے اپنے اپنے دو نوجوان بیٹے بڑھاپے کی دہلیز پار کرتے ہی یکے بعد دیگرے کھو دیے تھے تو دو بچیاں اپنی زندگی کا باب شروع کرتے ہی اپنے اپنے باپ کھو چکی تھیں!! میرے اپنے دوست خرم خان کی مغفرت کے لیے پھیلائے ہوئے ہاتھ پتہ نہیں کب بند ہوئے اور میں وہاں تعزیت کے لیے اکھٹے ہوئے افسردہ چہروں کے درمیان اپنی اداس چہرے کی مالک اپنی پوتی کے گلے لگ کر زارو قطار روتے ہوئے بوڑھے شیر افگن کو آنسوؤں کے سمندر میں اکیلا چھوڑ آیا
 
Last edited by a moderator:

Waseem

Moderator
Staff member
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&amp

[MENTION=28182]syed01[/MENTION]. Please add source of this article in your post.
 

<ChOuDhArY>

Chief Minister (5k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

Now Patwari league is trying to take him into their party ..
 

msaeed89

Minister (2k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

For God sake kalasara....yeh kiss ko tum chayyy bana rahayhooo..iss koo noon may jana hay tu jayegaa...tum kiyn is kay liyaya hamdardia samaitnay may lagayhoo....yeh pakistani politcs hay bhaaiaaaa....yahan kis ko koi deen mazhab nahi...yeh sub professional politicians hayy...yeh log apni dharti maaa ko khaa gayeee is karoobar mayy... tu kisi ka ayadat kerna na kernaa tu aik be mani baat hay...saaf saaf boltay sharam ati hay kay Musharraf ki offer ko thukra nahi sakaaaa...sher afghan niazi....
 

Bismail

MPA (400+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

lagta ha PTI ma koi na baap ha na beta? is pa b siasat?
 

IhsanIlahi

Chief Minister (5k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&amp

lagta ha PTI ma koi na baap ha na beta? is pa b siasat?

sher afghan k betay ki dukh sab ko hai,,, Allah usay apny saaye me rakhy,,,, lekin politics me ye dramay nahi chalty,,,, wo noon ya pti ya ppp me jaye koi nahi,,,, lekin general musharaf ka yar is la-nati
 

iftikharalam

Minister (2k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

Sad story, But I remmember him talking crap in support of Musharaf like Firoun, so I still HATE him and I hope he joins PML N soon.. But I still feel for the young girls who lost their fathers!
 

sabir1

Senator (1k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

tit for tat
 

mrk123

Chief Minister (5k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&#17

Apart from the loss of ones son or a little girl's father this story tells you how screwed up our politics and politicians are.

These journalists befriend the subjects that they are writing about and take pride in the kind of access that they get to benefit themselves with inside scoop. Is it not against journalistic ethics?

Few telling things from the article - that Mr Niazi was grooming his siyasi "jaanasheen", that he had to political ideology and he went from a so-called left leaning progressive party to supporting a military dictator just because he didn't get a condolence phone call. And, who knows that Musharraf was sincere in his call with him - who could tell that the cunning commando didn't do it as planned to gain his support and get him on his side.

Klasra is portraying his "friend" and benefactor in good light and a kind hearted and caring person by listing the example of him calling the ISI to release an innocent person - what about hundreds of others who are picked up by the ISI? and if he was helpless in stopping that, knowing fully well that almost all were victim of political victimization by a dictator, why didn't he quit??? Oh I know the reason - just because the sensitive and caring dictator called and condoled the death of his son - Wah ray hamari awaaam ki qismat. We are stuck with this heartless idiots on all sides who only feel the pain of their closed ones and for their person gain and fame they can ignore, tolerate or sometime don't even acknowledge the pain of others.

These politicians should be exposed for what they are, SELF SERVING - SHORT SIGHTED IDIOTS, who are exploiting us with the help of the military establishment.
And, here we have Mr. Klasra writing glowing tributes to Mr. Niazi and putting up a good face of him.....His writing about his arguments about Niazi's support are just window-dressing to absolve his close relationship with him.

No wonder Pakistani politics is so screwed up.....

and the same mr. nice guy niazi will be joining the right leaning PMLN - what a joke!
 

mrk123

Chief Minister (5k+ posts)
Re: مشرف نے 1 فون کال پر شیرافگن کو خرید لیا تھا&amp

I am not a PTI supporter but what the heck are you talking about?????

Don't you think that its time for Klasra to payback his good, ideology changing, friend Niazi?

Hundreds of thousands of people are losing their sons from preventable causes - and these corrupt, self-serving, self-enriching, lotas who only one ideology and that is to enrich themselves are part of the government and defend military dictators, politicians form the left or the right - at that time why don't they see the pain and suffering of the other people?

Just because he is getting ready to join PMLN we have to consider his pain? What about the pain of the millions who have no "journalists" to write about THEIR PAIN?

Kuch tu Khuda ka Khauf karo yaaar.....

lagta ha PTI ma koi na baap ha na beta? is pa b siasat?
 

Back
Top