مسلم خاتون طلاق کےبعد بھی خرچہ طلب،وصول کرنےکاحق رکھتی ہے،بھارتی سپریم کورٹ

13bharrtusuprememcourtsk.png


بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم خاتون کے اپنے شوہر سے خرچہ طلب کرنے کے کیس میں غیرمعمولی فیصلہ سنایا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک مسلم خاتون نے اپنے سابق شوہر سے خرچہ لینے کے لیے بھارت کی ریاست تلنگانا کی ایک عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس پر اس کے سابق شوہر کو 20 ہزار روپے ماہانہ عبوری طور پر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ سابق شوہر کی طرف سے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس پر تلنگانا ہائیکورٹ نے ماہانہ خرچہ 10 ہزار روپے کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

خاتون کے سابق شوہر نے تلنگانا ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر آج عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے بینچ کا اپنی رولنگ میں کہنا تھا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 125 کے تحت کوئی بھی مطلقہ مسلمان خاتون اپنے سابق شوہر سے ماہانہ خرچہ طلب کرنے اور اسے وصول کرنے کا حق رکھتی ہے۔

جسٹس بی و یناگارتنا اور جسٹس آگستائن جارج مسیح نے مسلمان خاتون کے سابق شوہر کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مسلم ویمن ایکٹ مجریہ 1986ء بھارت کے سیکولر قانون سے کسی صورت برتر نہیں ہو سکتا، درخواست سابقہ اہلیہ کی طرف سے خرچہ طلب کرنے کے خلاف دائر کی گئی ہے۔

جسٹس بی وی ناگاراتتھا کہ کسی خاتون کو اگر درخواست کے زیرالتواء ہونے کے دوران ہی طلاق ہو جائے تو وہ وہ 2019ء کے قانون کا سہارا لے سکتی ہے جو کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 125 میں طے کردہ حل سے زیادہ تجویز کرتا ہے۔درخواست مسترد کرنے کے ساتھ یہ قرار دے رہے ہیں کہ صرف شادی شدہ خواتین نہیں بلکہ تمام خواتین پر کوڈ آف کرمنل پروسیجر کا سیکشن 125 اطلاق پذیر ہو گا۔

واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 1985 ء کے مشہورِ زمانہ شاہ بانو کیس میں قرار دیا تھا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کا سیکشن 125 سیکولر پروویژن ہے جو تمام مسلمان خواتین پر بھی اطلاق پذیر ہو گا۔ 1986ء میں اس فیصلے کو مسلم ویمن (پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈیوورس) ایکٹ 1986ء نے کالعدم قرار دیا تھا اور 2001ء میں اس قانون کی بالادستی کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔
 

Back
Top