
وہ قومیں بدقسمت ہوتی ہیں جو سیاسی مقاصد کے لئے اپنے اندر کے دبے ہوئے تضادات کو زندہ کر کے انہیں دشمنی میں بدل دیتی ہیں۔ بنگال بھی کیا خطہ ہے۔ اس نے کیا کچھ نہیں دیکھا، مگر مسلم بنگال میں جو اب ہو رہا ہے ، اس کی کسی احمق سے احمق شخص سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جس شخص کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا،وہ ان کی پارلیمنٹ کا رکن رہ چکا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کا نہیں، بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کا۔71ء کے واقعات کے بعد بنگلہ دیش نے جینا سیکھ لیا تھا، مگر برا ہو اس سیاست کا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ایک بار پھر اعلان ہو جائے کہ ہم نے جو مفاہمت اور سچائی کا کمیشن بنایا تھا اور ماضی کی تلخیاں بھلا کر جس نئی زندگی کا آغاز کیا تھا ، اب اسے ختم جانو اور دوبارہ اس بات پر گفتگو کر و کہ آزادی کی جدوجہد میں کون قصور وار تھا۔ یہ نہیں کہ بنگلہ دیش میں یہ کام بنگلہ بندھو کے زمانے میں ہوا تھا اور بعد والوں نے اسے قبول نہ کیا تھا، حسینہ واجد اس دوران خود برسر اقتدارر ہیں۔ انہوں نے بھی گویا صورت حال کو قبول کر لیا تھا، پھر اس بار کیا سوجھی کہ گڑے مردے اکھاڑنے پہنچ گئی۔
میری اس بات سے یہ غلط مطلب لیا جا سکتا ہے کہ میں یہ مقدمہ قائم کررہا ہوں کہ جو ہوا، اسے بھول جاؤ ، ان کو معاف کردو۔ ہرگز نہیں۔ یہ سارا مقدمہ ہی جھوٹ پر مبنی ہے، میں تو صرف اس حماقت کی طرف اشارہ کررہا ہوں جو بنگلہ دیش کی حکومت اب روا رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب بنگلہ دیش ماڈل کا شاخسانہ ہے جس کا ہم بڑا چرچا سنتے آئے ہیں ۔ حسینہ واجد اس خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے کہ وہ جس شیر پر سواری کے لئے بٹھا دی گئی ہے ، اس سے اتری تو کیا بنے گا۔مولانا دلاور سعیدی ایک انتہائی ہر دلعزیز قائد ہیں جن کا خطاب سننے کے لئے لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔ انہیں کیا اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں۔ حسینہ حکومت نے جماعت اسلامی کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ جن11افراد پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ ان میں9کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ، باقی دو کاخالدہضیاء کی پارٹی سے ہے۔
میں اب سوچنے لگا ہوں کہ ہمیں بنگلہ دیش کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ یہ مقدمہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں، اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہم نے بنگال کے مسلمانوں کی بہتری کے لئے عالم اسلام کے کہنے پر بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ ہمیں یہ سمجھایا گیا کہ سیاست اپنی جگہ مگر ہم وہاں کے مسلمانوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، وقتی ابال جب بیٹھا ہے تو دنیا کو یقین نہ آیا کہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دلوں میں کس طرح پاکستان زندہ و توانا تھا۔ ڈھاکہ سٹیڈیم ، ہاکی میچ، پھر کرکٹ میچ، صرف انڈیا ہی دم بخود نہیں رہ گیا، پوری دنیا حیران تھی کہ یہ لوگ تو اندر سے انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی نکلے۔اس زمانے کے رابطوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مسلم بنگال کی روح زندہ ہے۔ خالدہ ضیاء ہو یا حسینہ واجد، ضیاء الرحمن ہویا حسن ارشاد سبھی کے دور گزر گئے، مسلم بنگال اپنا اظہار کرتا رہا۔ ہم بھی سب بھول بھال کر اس بات پر آ گئے کہ اپنے بھائی ہیں، جیسے بھی رہیں خوش رہیں۔ ایسا بھی وقت آیا جب بنگلہ دیش کے حکمرانوں نے پاکستان کو کنفیڈریشن کے سندیسے بھیجے۔ ہم اپنے ناکردہ گناہوں کی بھی معافی مانگتے رہے۔ اس بات کی ضرورت بھی محسوس نہ کی کہ ان سے بھی کوئی توقع رکھیں۔ میں یہاں اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بات کر رہا ہوں، وگرنہ کلیجہ پھٹنے کو آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے سیکولر دانش وروں کو یہ ہوکا ہو گیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے آزادی بھارت کے ٹینکوں پر بیٹھ کر حاصل نہیں کی، بلکہ یہ ان کے اپنے قوت بازو کا نتیجہ ہے۔ کوئی ہے جو کمتی باہنی کے انسانیت کے خلاف جرائم پر کمیشن بنائے۔ کوئی ہے جو تاریخ کو گنگال سکے، سچ اور جھوٹ کو الگ کر سکے۔ کیا قیامت ہے کہ جھوٹ پر جھوٹ گھڑا جارہا ہے ۔ ہم بھی کیسے بے غیرت لوگ ہیں۔ الشمس اور البد کا مقدمہ کوئی جماعت اسلامی کا مقدمہ نہیں، یہ پاکستان کا مقدمہ ہے۔ حد ہو گئی جنہوں نے اپنی منتخب حکومت اور فوج کا ساتھ دیا۔ وہ تو غدار ٹھہرے۔ اس لئے کہ دشمن نے انہیں شکست دے دی تھی۔ اور جو دشمن کے ہاتھ کا ہتھیا ر بن کر اپنی قوم کے خلاف لڑے وہ ہیرو بن بیٹھے۔ تاریخ نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا جب شیخ مجیب کا لاشہ ڈھاکہ کے ایک مکان میں بے گوروکفن پڑا تھا اور لوگ جشن منا رہے تھے۔
اس وقت 71ء میں، بھارت نے پہلا حملہ کیا تھا، اب دوسرا حملہ کردیا ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ کو مسلسل مسخ کیا جارہا ہے۔ اب وہ نسل جوان ہو گئی ہے جنہوں نے پاکستان دیکھا ہی نہیں۔ ان کو غلط تاریخ پڑھائی جارہی ہے ۔ کیا مسلم بنگال کی تاریخ71ء سے شروع ہوتی ہے۔ کیا اس سے پہلے کے تاریخی ورثے سے دستبردار ہو کر بنگالی اپنی شناخت کر سکتا ہے۔ اب کے فضل الحق حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین سب ہمارے لیڈر ہیں ،ہم انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کیا یہ بنگال کی تاریخ نہیں ہے۔ کیا یہ غلط ہے کہ انہوں نے محمد علی جناح۔ ایک شخص کو اپنا قائداعظم مانا تھا۔ لیاقت علی خان کو اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔ قومیں جب پاگل ہو جاتی ہیں تو اپنے روشن ورثے کو تج دینے کا سوچتی ہیں، وگرنہ کون بہ قائمی ہوش و ہواس میں ایسا کر سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا یہ جماعت اسلامی کے خلاف سیاسی لڑائی نہیں۔ اس میں پاکستان بھی فریق ہے۔ پاکستان میں کوئی عزت دار حکومت ہوتی تو اس ٹربیونل اور اس کی سزاؤں پر احتجاج کرتی۔ صرف یہی نہیں عالم اسلام اور دنیا کے ان ممالک کے ضمیر کو بھی جگاتی جنہوں نے اس وقت بنگلہ دیش کو تسلیم کرایا جب ہماری سڑکیں بنگلہ دیش نامنظور کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔ آج تو لگتا ہے، اس وقت ہمارے لوگوں کے اندیشے غلط نہ تھے۔ ہمارا بنگلہ دیش تسلیم کرنا گویا اس افہام و تفہیم کا شاخسانہ تھا کہ ماضی کی تلخیاں دفن کر دی جائیں گی۔ ہم نے بھی بہت سی باتوں پر اصرار نہیں کیا، انہوں نے بھی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ وہ مسلسل اور سراسر جھوٹ بولتے رہے اور اعدادو شمار غلط پیش کرتے رہے۔ کاش کوئی مورخ اس جھوٹ میں سے سچ تلاش کر سکے۔ ہم نے یقیناً بڑی غلطیاں کی ہیں ، مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بھی اپنے سر لے لیں جن کا کوئی وجود نہیں۔ تاریخ کے دریچوں سے سچ چھن چھن کر آ رہا ہے اور سب ہی حقائق واضح ہوتے جارہے ہیں۔ مگر ہماری معذرت خواہانہ پالیسیوں کی وجہ سے کسی نے کوشش بھی نہیں کہ تاریخ کو کھنگالا جائے۔
شکست کبھی کبھی ایسا جبر مسلط کردیا کرتی ہے۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا۔
اتنا عرض کر دوں کہ اس کھیل سے حسینہ واجد کو بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ تاریخ نے تو اندراگاندھی کو بھی نہیں چھوڑا، یہ کیا سمجھتی ہے۔ بہرحال ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا بھی نہیں جا سکتا اور مسلم بنگال کی یوں پامالی بھی نہیں دیکھی جا سکتی۔ تاریخ کا جو پہیہ حرکت میں آ گیا ہے اس کے دندانوں میں بڑے بڑے پس جائیں گے۔
میری اس بات سے یہ غلط مطلب لیا جا سکتا ہے کہ میں یہ مقدمہ قائم کررہا ہوں کہ جو ہوا، اسے بھول جاؤ ، ان کو معاف کردو۔ ہرگز نہیں۔ یہ سارا مقدمہ ہی جھوٹ پر مبنی ہے، میں تو صرف اس حماقت کی طرف اشارہ کررہا ہوں جو بنگلہ دیش کی حکومت اب روا رکھے ہوئے ہے۔ یہ سب بنگلہ دیش ماڈل کا شاخسانہ ہے جس کا ہم بڑا چرچا سنتے آئے ہیں ۔ حسینہ واجد اس خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے کہ وہ جس شیر پر سواری کے لئے بٹھا دی گئی ہے ، اس سے اتری تو کیا بنے گا۔مولانا دلاور سعیدی ایک انتہائی ہر دلعزیز قائد ہیں جن کا خطاب سننے کے لئے لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔ انہیں کیا اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں۔ حسینہ حکومت نے جماعت اسلامی کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ جن11افراد پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ ان میں9کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ، باقی دو کاخالدہضیاء کی پارٹی سے ہے۔
میں اب سوچنے لگا ہوں کہ ہمیں بنگلہ دیش کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ یہ مقدمہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں، اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہم نے بنگال کے مسلمانوں کی بہتری کے لئے عالم اسلام کے کہنے پر بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ ہمیں یہ سمجھایا گیا کہ سیاست اپنی جگہ مگر ہم وہاں کے مسلمانوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، وقتی ابال جب بیٹھا ہے تو دنیا کو یقین نہ آیا کہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دلوں میں کس طرح پاکستان زندہ و توانا تھا۔ ڈھاکہ سٹیڈیم ، ہاکی میچ، پھر کرکٹ میچ، صرف انڈیا ہی دم بخود نہیں رہ گیا، پوری دنیا حیران تھی کہ یہ لوگ تو اندر سے انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی نکلے۔اس زمانے کے رابطوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مسلم بنگال کی روح زندہ ہے۔ خالدہ ضیاء ہو یا حسینہ واجد، ضیاء الرحمن ہویا حسن ارشاد سبھی کے دور گزر گئے، مسلم بنگال اپنا اظہار کرتا رہا۔ ہم بھی سب بھول بھال کر اس بات پر آ گئے کہ اپنے بھائی ہیں، جیسے بھی رہیں خوش رہیں۔ ایسا بھی وقت آیا جب بنگلہ دیش کے حکمرانوں نے پاکستان کو کنفیڈریشن کے سندیسے بھیجے۔ ہم اپنے ناکردہ گناہوں کی بھی معافی مانگتے رہے۔ اس بات کی ضرورت بھی محسوس نہ کی کہ ان سے بھی کوئی توقع رکھیں۔ میں یہاں اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بات کر رہا ہوں، وگرنہ کلیجہ پھٹنے کو آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے سیکولر دانش وروں کو یہ ہوکا ہو گیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے آزادی بھارت کے ٹینکوں پر بیٹھ کر حاصل نہیں کی، بلکہ یہ ان کے اپنے قوت بازو کا نتیجہ ہے۔ کوئی ہے جو کمتی باہنی کے انسانیت کے خلاف جرائم پر کمیشن بنائے۔ کوئی ہے جو تاریخ کو گنگال سکے، سچ اور جھوٹ کو الگ کر سکے۔ کیا قیامت ہے کہ جھوٹ پر جھوٹ گھڑا جارہا ہے ۔ ہم بھی کیسے بے غیرت لوگ ہیں۔ الشمس اور البد کا مقدمہ کوئی جماعت اسلامی کا مقدمہ نہیں، یہ پاکستان کا مقدمہ ہے۔ حد ہو گئی جنہوں نے اپنی منتخب حکومت اور فوج کا ساتھ دیا۔ وہ تو غدار ٹھہرے۔ اس لئے کہ دشمن نے انہیں شکست دے دی تھی۔ اور جو دشمن کے ہاتھ کا ہتھیا ر بن کر اپنی قوم کے خلاف لڑے وہ ہیرو بن بیٹھے۔ تاریخ نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا جب شیخ مجیب کا لاشہ ڈھاکہ کے ایک مکان میں بے گوروکفن پڑا تھا اور لوگ جشن منا رہے تھے۔
اس وقت 71ء میں، بھارت نے پہلا حملہ کیا تھا، اب دوسرا حملہ کردیا ہے۔ بنگلہ دیش کی تاریخ کو مسلسل مسخ کیا جارہا ہے۔ اب وہ نسل جوان ہو گئی ہے جنہوں نے پاکستان دیکھا ہی نہیں۔ ان کو غلط تاریخ پڑھائی جارہی ہے ۔ کیا مسلم بنگال کی تاریخ71ء سے شروع ہوتی ہے۔ کیا اس سے پہلے کے تاریخی ورثے سے دستبردار ہو کر بنگالی اپنی شناخت کر سکتا ہے۔ اب کے فضل الحق حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین سب ہمارے لیڈر ہیں ،ہم انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کیا یہ بنگال کی تاریخ نہیں ہے۔ کیا یہ غلط ہے کہ انہوں نے محمد علی جناح۔ ایک شخص کو اپنا قائداعظم مانا تھا۔ لیاقت علی خان کو اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔ قومیں جب پاگل ہو جاتی ہیں تو اپنے روشن ورثے کو تج دینے کا سوچتی ہیں، وگرنہ کون بہ قائمی ہوش و ہواس میں ایسا کر سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا یہ جماعت اسلامی کے خلاف سیاسی لڑائی نہیں۔ اس میں پاکستان بھی فریق ہے۔ پاکستان میں کوئی عزت دار حکومت ہوتی تو اس ٹربیونل اور اس کی سزاؤں پر احتجاج کرتی۔ صرف یہی نہیں عالم اسلام اور دنیا کے ان ممالک کے ضمیر کو بھی جگاتی جنہوں نے اس وقت بنگلہ دیش کو تسلیم کرایا جب ہماری سڑکیں بنگلہ دیش نامنظور کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔ آج تو لگتا ہے، اس وقت ہمارے لوگوں کے اندیشے غلط نہ تھے۔ ہمارا بنگلہ دیش تسلیم کرنا گویا اس افہام و تفہیم کا شاخسانہ تھا کہ ماضی کی تلخیاں دفن کر دی جائیں گی۔ ہم نے بھی بہت سی باتوں پر اصرار نہیں کیا، انہوں نے بھی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ وہ مسلسل اور سراسر جھوٹ بولتے رہے اور اعدادو شمار غلط پیش کرتے رہے۔ کاش کوئی مورخ اس جھوٹ میں سے سچ تلاش کر سکے۔ ہم نے یقیناً بڑی غلطیاں کی ہیں ، مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ جھوٹ بھی اپنے سر لے لیں جن کا کوئی وجود نہیں۔ تاریخ کے دریچوں سے سچ چھن چھن کر آ رہا ہے اور سب ہی حقائق واضح ہوتے جارہے ہیں۔ مگر ہماری معذرت خواہانہ پالیسیوں کی وجہ سے کسی نے کوشش بھی نہیں کہ تاریخ کو کھنگالا جائے۔
شکست کبھی کبھی ایسا جبر مسلط کردیا کرتی ہے۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا۔
اتنا عرض کر دوں کہ اس کھیل سے حسینہ واجد کو بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ تاریخ نے تو اندراگاندھی کو بھی نہیں چھوڑا، یہ کیا سمجھتی ہے۔ بہرحال ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا بھی نہیں جا سکتا اور مسلم بنگال کی یوں پامالی بھی نہیں دیکھی جا سکتی۔ تاریخ کا جو پہیہ حرکت میں آ گیا ہے اس کے دندانوں میں بڑے بڑے پس جائیں گے۔
Last edited: