binmahmood
Councller (250+ posts)
As originally posted in http://maxwhispers.blogspot.com/2012/10/blog-post.html
[FONT=&]ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک نئ کہانی سننے کو ملتی ہے- کوئی اسے طالبان کا حامی کہتا ہے تو کوئی اسکی ہم جماعتوں کا پوچھتا ہے- کوئی ڈرون حملوں میں شہید ہونی والے معصوم بچوں کا حوالہ دیتا ہے تو کوئی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی پیشنگوئی کرتے ہوے خود کو ایک عظیم مفکّر اور دانشور کی حیثیت سے پیش کرتا ہے- کسی نے مگر یہ نہ سوچا یا اگر سوچا بھی تو ایسا خیال ذہن میں آتے ہی سر جھٹک کر خود کو اسس خیال کے بوجھ سے ہلکا کر ڈالا.. کے اگر کچھ ایسا ہی میرے اپنے گھر کی ملالہ کے ساتھ ہوتا تو میرے کیا جذبات ہوتے؟
[/FONT]
[FONT=&] ڈرون حملے اپنی منطق کے مطابق ایسی جگہ کیے جاتے ہیں جہاں حکومت پاکستان کی اپنی رٹ قائم نہیں- امریکہ کا مطلبہ یہ ہے کے پاک افواج اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لئے وزیرستان سمیت ان تمام علاقوں پے ایک مفصل آپریشن کر کے وہاں موجود ایسے تمام عناصر کا قلع قمع کریں جو ان سنگلاخ پہاڑوں پے بیٹھ کرامریکی اور پاکستانی افواج پر حملوں کی پلاننگ کرتے ہیں- اس بات سے قطع نظر، کے امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن، ہمیں یہ بات سوچنی پڑے گی، کے ہم کب تک اسی طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی عوام کو شہید ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ یہ جنگ امریکہ نے ہم پے مسلط کی، یہ مان لیا جاۓ تب بھی، کیا ہم اس وجہ سے اپنے لوگوں کو مرواتے رہیں؟ کیا یہ جواز ہمیں ان طالبان پے زوردار اور کاری وار کرنے سے روک سکتا ہے جن کے لی ہمارے فوجی جوانوں کا سر قلم کر کے انھیں کیمرے کی آنکھہ سے فلمبند کرنا ایک پر فخر فعل ہے؟ آخر ہم کیوں وزیرستان میں فوجی آپریشن کے خلاف ہیں؟ طالبان کے ہاتھوں خواتین پر تشدد کی ویڈیو اگر جعلی بھی تھی، تب بھی، ہم مولوی فضل اللہ کی وعدہ خلافی اور اس کے سمیت طالبان کی طرف سے تشدد، پولیو ویکسین کی مخالفت اور لڑکیوں کے سکول تباہ کرنے کے عظیم کارنامے بھول چکے ہیں؟ کیا ہمیں یاد نہیں کے اس قوم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ہم ہر روز ایک خودکش حملے کا خوفناک انتظار کرتے تھے؟ کیا ہم یہ نہیں دیکھ پا رہےکے سوات آپریشن کے بعد بہرحال امن کسی حد تک ہی سہی مگر واپس ضرور آچکا ہے؟
[/FONT]
[FONT=&]اسے دو گولیاں لگیں، ایک سر میں، دوسری گردن کے قریب کندھے پر- اگر اسے معلوم ہوتا کے محض اپنے سکول کے بارے میں اپنے جذبات لوگوں تک پہنچانے میں اسے اسس اذیت سے گزرنا پڑے گا تو شاید وہ دوسری لڑکیوں کی طرح ایک عام سی طالب علم رہنا گوارہ کرتی- اس کے بارے میں سوچ کے مجھے محسوس ہوتا ہے کے جیسے میں ایک بار پھر زمانہ جاہلیت میں آ گیا ہوں جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج خوب زور و شور سے آغاز پا چکا ہے- ہم دن بھر اپنے گلی محلے کے تبصروں میں مغرب کی ایک شدید تصویر پیش کرتے ہیں جہاں عورت کا ننگ ہم افسوس کی عینک لگا کے دیکھتے ہیں- مجھ سمیت میرے ہموطنوں کی اکثریت دعا کرتی ہے کے ہماری بہنیں اور بیٹیاں ایسے معاشرے سے دور رہیں- لیکن ہمارا اپنا معاشرہ منافقت کی وو حدود چھو چکا ہے جہاں سے ہم اپنی مرضی سے واپس شاید کبھی نہی آسکتے- ہم وہ لوگ ہیں جو میڈونا سمیت مغربی فنکاروں کو دیکھ کر توبہ اور استغفار کے ڈرامے شروع کر دیتے ہیں لیکن ملالہ یوسفزئی کو اس ازیت ناک حالت میں دیکھنے کے باوجود، ہم میں سے اکثر اسے یکسر نظرانداز کرنے پر تلے ہے ہیں- ہم ڈرون حملوں کے خلاف امن مارچ تو کرتے ہیں، لیکن اس کے اختتام میں ان لعین طالبان کی مذمت نہیں کرتے جو ملالہ سے لے کر اے-این-پی کے صوبائی وزیر کے اکلوتے جوان بیٹے تک کو قتل کر کے ہمیں ہماری بےبسی کا احساس دلاتے ہیں- ہم فوج پے فخر تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی انسانی حقوق کی نام نہاد زنجیر اپنی افواج کو پہنا دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کے ان کے دل بھی پھٹ جاتے ہونگے جب وہ اپنے ہم بیرک بھائی کی سر کٹی لاش کو کندھا دیتے ہونگے- شاید اللہ کا خوف ہم سب میں ختم ہو چکا ہے- شاید ہم قرآن کے اس اصول کو بھول چکے ہیں جس کے تحت ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان لینے کا حکم دیا گیا ہے- اگر آج ہم وزیرستان سمیت دیگر شورش زدہ علاقوں پر فوجی آپریشن کے حق میں کھڑے نہ ہوے، تو شاید کل بہت دیر ہو چکی ہو- اگر آج کے مسلماں نے اپنے بھائوں اور بہنوں کو ملالہ کی طرح نہتا شہید ہونے دیا، تو کل یہی مسلمان اس دنیا اور انے والی آخرت میں کسی کو منہ نہ دکھانے کی حدد تک شرمندہ ہو گا ! [/FONT]
[FONT=&]اس قوم کا ماضی بھلے تابندہ ہے[/FONT]
[FONT=&]کر صوت یکجائی سے یکجا ان کو[/FONT]
[FONT=&]کہ مستقبل کے دریچے میں مسلماں --- شرمندہ ہے![/FONT]
[FONT=&]ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک نئ کہانی سننے کو ملتی ہے- کوئی اسے طالبان کا حامی کہتا ہے تو کوئی اسکی ہم جماعتوں کا پوچھتا ہے- کوئی ڈرون حملوں میں شہید ہونی والے معصوم بچوں کا حوالہ دیتا ہے تو کوئی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی پیشنگوئی کرتے ہوے خود کو ایک عظیم مفکّر اور دانشور کی حیثیت سے پیش کرتا ہے- کسی نے مگر یہ نہ سوچا یا اگر سوچا بھی تو ایسا خیال ذہن میں آتے ہی سر جھٹک کر خود کو اسس خیال کے بوجھ سے ہلکا کر ڈالا.. کے اگر کچھ ایسا ہی میرے اپنے گھر کی ملالہ کے ساتھ ہوتا تو میرے کیا جذبات ہوتے؟
[/FONT]
[FONT=&] ڈرون حملے اپنی منطق کے مطابق ایسی جگہ کیے جاتے ہیں جہاں حکومت پاکستان کی اپنی رٹ قائم نہیں- امریکہ کا مطلبہ یہ ہے کے پاک افواج اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لئے وزیرستان سمیت ان تمام علاقوں پے ایک مفصل آپریشن کر کے وہاں موجود ایسے تمام عناصر کا قلع قمع کریں جو ان سنگلاخ پہاڑوں پے بیٹھ کرامریکی اور پاکستانی افواج پر حملوں کی پلاننگ کرتے ہیں- اس بات سے قطع نظر، کے امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن، ہمیں یہ بات سوچنی پڑے گی، کے ہم کب تک اسی طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی عوام کو شہید ہوتا دیکھتے رہیں گے؟ یہ جنگ امریکہ نے ہم پے مسلط کی، یہ مان لیا جاۓ تب بھی، کیا ہم اس وجہ سے اپنے لوگوں کو مرواتے رہیں؟ کیا یہ جواز ہمیں ان طالبان پے زوردار اور کاری وار کرنے سے روک سکتا ہے جن کے لی ہمارے فوجی جوانوں کا سر قلم کر کے انھیں کیمرے کی آنکھہ سے فلمبند کرنا ایک پر فخر فعل ہے؟ آخر ہم کیوں وزیرستان میں فوجی آپریشن کے خلاف ہیں؟ طالبان کے ہاتھوں خواتین پر تشدد کی ویڈیو اگر جعلی بھی تھی، تب بھی، ہم مولوی فضل اللہ کی وعدہ خلافی اور اس کے سمیت طالبان کی طرف سے تشدد، پولیو ویکسین کی مخالفت اور لڑکیوں کے سکول تباہ کرنے کے عظیم کارنامے بھول چکے ہیں؟ کیا ہمیں یاد نہیں کے اس قوم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ہم ہر روز ایک خودکش حملے کا خوفناک انتظار کرتے تھے؟ کیا ہم یہ نہیں دیکھ پا رہےکے سوات آپریشن کے بعد بہرحال امن کسی حد تک ہی سہی مگر واپس ضرور آچکا ہے؟
[/FONT]
[FONT=&]اسے دو گولیاں لگیں، ایک سر میں، دوسری گردن کے قریب کندھے پر- اگر اسے معلوم ہوتا کے محض اپنے سکول کے بارے میں اپنے جذبات لوگوں تک پہنچانے میں اسے اسس اذیت سے گزرنا پڑے گا تو شاید وہ دوسری لڑکیوں کی طرح ایک عام سی طالب علم رہنا گوارہ کرتی- اس کے بارے میں سوچ کے مجھے محسوس ہوتا ہے کے جیسے میں ایک بار پھر زمانہ جاہلیت میں آ گیا ہوں جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج خوب زور و شور سے آغاز پا چکا ہے- ہم دن بھر اپنے گلی محلے کے تبصروں میں مغرب کی ایک شدید تصویر پیش کرتے ہیں جہاں عورت کا ننگ ہم افسوس کی عینک لگا کے دیکھتے ہیں- مجھ سمیت میرے ہموطنوں کی اکثریت دعا کرتی ہے کے ہماری بہنیں اور بیٹیاں ایسے معاشرے سے دور رہیں- لیکن ہمارا اپنا معاشرہ منافقت کی وو حدود چھو چکا ہے جہاں سے ہم اپنی مرضی سے واپس شاید کبھی نہی آسکتے- ہم وہ لوگ ہیں جو میڈونا سمیت مغربی فنکاروں کو دیکھ کر توبہ اور استغفار کے ڈرامے شروع کر دیتے ہیں لیکن ملالہ یوسفزئی کو اس ازیت ناک حالت میں دیکھنے کے باوجود، ہم میں سے اکثر اسے یکسر نظرانداز کرنے پر تلے ہے ہیں- ہم ڈرون حملوں کے خلاف امن مارچ تو کرتے ہیں، لیکن اس کے اختتام میں ان لعین طالبان کی مذمت نہیں کرتے جو ملالہ سے لے کر اے-این-پی کے صوبائی وزیر کے اکلوتے جوان بیٹے تک کو قتل کر کے ہمیں ہماری بےبسی کا احساس دلاتے ہیں- ہم فوج پے فخر تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی انسانی حقوق کی نام نہاد زنجیر اپنی افواج کو پہنا دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کے ان کے دل بھی پھٹ جاتے ہونگے جب وہ اپنے ہم بیرک بھائی کی سر کٹی لاش کو کندھا دیتے ہونگے- شاید اللہ کا خوف ہم سب میں ختم ہو چکا ہے- شاید ہم قرآن کے اس اصول کو بھول چکے ہیں جس کے تحت ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان لینے کا حکم دیا گیا ہے- اگر آج ہم وزیرستان سمیت دیگر شورش زدہ علاقوں پر فوجی آپریشن کے حق میں کھڑے نہ ہوے، تو شاید کل بہت دیر ہو چکی ہو- اگر آج کے مسلماں نے اپنے بھائوں اور بہنوں کو ملالہ کی طرح نہتا شہید ہونے دیا، تو کل یہی مسلمان اس دنیا اور انے والی آخرت میں کسی کو منہ نہ دکھانے کی حدد تک شرمندہ ہو گا ! [/FONT]
Last edited: