مسلمان، محمد ﷺ کے بارے میں جذباتی کیوں ہیں

ابابیل

Senator (1k+ posts)
مسلمان، امامِ کائنات سیدنا محمد ﷺ کے بارے میں جذباتی کیوں ہیں؟

e5958f730a07aedbb3720cd26b9d72db_M.jpg


ہمارے نبی محمد ﷺ سید الانبیاء اورخاتم النبیین ہیں، آپﷺ پر قرآن جیسی حکیمانہ کتاب نازل ہوئی، آپﷺ کی شریعت تمام پچھلی شریعتوں کو منسوخ کرتی ہے، قرآن گزشتہ تمام کتابوں کو منسوخ کرتا ہے، آپﷺ کی امت تمام امتوں میں افضل ہے، آپ ﷺکو اللہ تعالی نے محشر میں مقام محمود، لواء الحمد، حوض کوثر اور جنت میں سب سے اعلی وافضل مقام عطا فرمایا ہے، انبیاء و رسل ﷩میں آپﷺ ہی جنت کا دروازہ کھولیں گے اورسب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آپﷺ کی امت تمام امتوں میں سب سےپہلے جنت میں داخل ہوگی، اللہ تعالی نے خود آپﷺ کی بلند اخلاقی کی شہادت دی ہے، اللہ تعالی اور اس کے تمام ملائکہ آپﷺ ہی پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں، اللہ نے آپﷺ کو آپﷺ کی دنیوی زندگی ہی میں معراج سے سرفراز کیا، آپﷺ کی دیانت وامانت کی شہادت آپﷺ کے جانی وبدترین دشمن ابو جہل اور قریش بھی دیتے تھے۔
آپﷺ کی صداقت کی شہادت مکہ کے شجر وحجر بھی دیتے تھے، آپﷺ کی شجاعت وبہادری پرغزوہ حنین اور مدینہ کی خوف ناک رات شاہد عدل ہیں، آپﷺ کی عفت وپاک دامنی کی شہادت ازواج مطھرات دیتی ہیں، آپﷺ کی عدالت کی شہادت اسامہ ﷜کے والد اور چچا دیتے ہیں، آپﷺ کے تحمل وبردباری کی گواہی عرب کے بدو، مدینہ کے یہودی اور ثمامہ بن اثال ﷜دیتے ہیں، آپ ﷺکے افضل ترین میزبان ہونے کی شہادت وہ اعرابی دیتا ہے جس نے آپ ﷺکے بسترہ و کمرہ کو پاخانہ کی غلاظت سے آلودہ کردیا تھا، آپﷺ کے دینی استقامت کی شہادت اسامہ کی سفارش والا واقعہ دیتا ہے،
آپﷺ کی شب بیداری وتہجد گزاری کی شہادت آپ ﷺکے سوجے ہوئے قدم دیتے ہیں، آپﷺ کے حسن عبادت کی شہادت ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت دیتی ہے، آپ ﷺکے حسن سلوک کے بارےمیں دس سالہ انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو، آپﷺ کے حسن اخلاق کے بارےمیں معلوم کرنا ہو تو قرآن کے سورہ القلم کا مطالعہ کرو، آپﷺ کے عفو ودرگزر کا دریا مشاہدہ کرنا ہو تو فتح مکہ کے وقت مکہ کے خون کے پیاسے باسیوں سے دریافت کرو، آپﷺ کا مقام ومرتبہ معلوم کرنا ہو تو آیت (فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم) الخ کی تفسیر پڑھو، یہ داخلی شہادت نمونہ مشتے از خروارے کے مصداق ہے ورنہ اہل علم نے آپﷺ کی سیرت پر کتابوں کے پشتارے لگا دیئے ہیں،
غرض آپﷺ کی کون سی خوبی کا ذکر کریں اور کس کو ترک کریں، ماحصل یہ ہے کہ: حسن یوسف ، دم عیسی، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ: یا صاحب الجمال ویا سید البشر من وجھک المنیر لقد نور القمر لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ تو اپنوں کی شہادت ہے اور اپنے تو تعریف میں آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتے ہیں، غیر کی شہادت اس معاملہ میں زیادہ معتبر مانی جاتی ہے، مشہور عربی کہاوت ہے: 'والفضل ما شہدت بہ الاعداء' تو ایسے بیمار ذہن لوگوں کی ضیافت طبع کے لئے غیروں کی درج ذیل شہادت پڑھئے، اطمینان ہوجائے گا ان شاء اللہ: مشہور فلسفی اور مفکر جارج برناڈشا نے یہ شہادت دی ہے: " اگر آئندہ سو سال کے اندر کسی مذہب کے انگلستان بلکہ پورے یورپ میں عوام کے ذہن وفکر پر چھانے کا امکان ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے۔ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی میری نگاہ میں بڑی قدر ومنزلت ہے اور اس کی وجہ اس مذہب کی اثراندازی اور اس کی طاقت ہے، اس مذہب کی تعلیمات میں ایسی جامعیت اور ہمہ گیریت ہے کہ وہ ہر دور میں زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر دور میں انسان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ (محمد رسول اللہﷺ- 283)۔
انگریزی سیاح سر ویلیم میور اپنی مشہور کتاب "لائف آف محمدﷺ" میں رقم طراز ہیں: ہمارے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع اور اس کا احترام مناسب ہے، آپﷺ اپنے متبعین کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور احترام سے پیش آتے، آپﷺ تواضع وخاکساری، محبت ورافت اور عاجزی وانکساری اور سخاوت وبھائی چارگی کا سر چشمہ تھے"۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 165) ۔ یہی انصاف پسند محقق سر ولیم میور نے اپنی مذکورہ کتاب میں آگے یہ اعتراف کیا ہے: " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جب مطالعہ کیا گیا تو یہی حقیقت سامنے آئی کہ وہ نیک طبیعت ، ستھری نیت، بلند اخلاق اور تمام خوبیوں کا مجسم تھے ۔
ان خوبیوں کی ماضی، حال اور مستقبل میں کلی طور پر کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص 211)۔ لندن یونیورسٹی میں مشرقیات کے سابق پروفیسر الفریڈ گلیوم نے اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں خراج عقیدت پیش کیا ہے: " سب سے پہلے اس بات کا یقین کرنا ضروری ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کی عظیم شخصیت تھے، آپ کو تمام سماجی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں خرق عادت قسم کی قدرت حاصل تھی "۔
(اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 171)۔ ویانا یونیورسٹی کے لاء فیکلٹی کے پرنسپل پروفیسر چارل نے سن 1937ءمیں حقوق کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں کہا تھا: " انسانیت کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت کی نسبت کا فخر حاصل ہے، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امی ہونے کے باوجود آج سے تقریبا تیرہ سو سال قبل ایسی شریعت پیش کی کہ اگر ہم دو ہزار سال بعد بھی اس چوٹی تک پہنچ جائیں تو ہم جیسے اہل یورپ کے لئے باعث سعادت ہوگا "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص209)۔ جرمن شاعر گوئٹے نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سنا تو کہہ اٹھا: " اگر اسلام یہی ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور ہر صاحبِ فضل اور صاحبِ شریعت انسان مسلمان تھے "۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں:ص 213)۔
ٹریپٹی کالج آکسفورڈ کے فیلوریوزنڈ باسورتھ اسمتھ نے سن 1874ء میں اپنے ایک لیکچر میں کہا: " عیسائی دنیا میں جانوروں اور پرندوں کی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے، لیکن یہ پیغمبر اسلام کی تعلیم کا اثر ہے کہ آج دنیا میں پرندوں کو قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت جب یورپ پہنچی تو یورپ نے جن اچھی باتوں کو اپنایا ان میں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی بھی شامل تھی "۔ (اعتراف حق ص 168)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد شادیوں کے بارے میں یہی انصاف پسند مصنف کہتا ہے: " یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آپﷺ کی بیشتر شادیاں مخصوص حالات کے تحت ہوئیں،
یہ شادیاں جذبہ رحم کا نتیجہ تھیں، بیشتر شادیاں ان خواتین سے ہوئیں جو بعض وجوہات اور واقعات کی بنا پر قابل رحم حالت میں تھیں، بیشتر خواتین جن سے آپﷺ نے شادیاں کیں بیوائیں تھیں جو صاحبِ ثروت بھی نہیں تھیں اور خوبصورتی میں بھی قابلِ ذکر نہیں تھیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بے سہارا تھیں۔ آپﷺ پاکبا*ز اور صالح انسان تھے، آپﷺ کا دامن ہمیشہ پاک اور بے داغ رہا ، حالانکہ اس معاشرہ میں عورتیں بے وقعت اور کھلونا تھیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بے وقعت مخلوق کو وقار بخشا "۔ مسٹر پیر کریٹس قرآن کی تعلیم ِحجاب کو اس طرح خراج پیش کرتا ہے: "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں"۔ (اعتراف حق ص 209) اب ہم انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا سے ایک اہم اقتباس نقل کرکے بات کو ختم کرتے ہیں جس میں مغربی دانشوروں اور مفکرین کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے: "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہیں پیغمبر ہیں، کہیں جنرل ہیں، کہیں سردار ہیں، کہیں سپاہی، کہیں کاروباری آدمی، کہیں واعظ، کہیں فلسفی، کہیں سیاست داں ومدبر ہیں اور کہیں مصلح، کہیں عورتوں کے نجات دہندہ ہیں، کہیں غلاموں کے محافظ ہیں، کہیں منصف ہیں، کہیں مذہبی پیشوا ہیں اور تمام سرگرمیوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک سورما (Hero) کی ہے"۔
ان سارے حقائق کے باوجود یہ بھی ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ قرونِ وسطی میں اور آج کے عصر حاضر میں بھی عیسائی راہبوں، ہندوؤں اور یہودیوں کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی جاتی ہےبلکہ یوں کہئے کہ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی جارہی ہے، زمانہ جاہلیت میں آپﷺ کو ساحر اور مجنون کہنا ہو یا رام پال ہندو ،آر ایس ایس کا آپ ﷺکی شخصیت کو مطعون کرنے کی کوشش کرنا ہو، یا ازمنہ وسطی میں عیسائی راہبوں، بشپوں اور یہودیوں کا آپ ﷺکو جابر وظالم اور بزورِ شمشیر اسلام پھیلانے والا باور کرانے کی سعی نا مراد کرناہو، یا سلمان رشدی ملعون کا بدنام زمانہ کتاب "شیطانی آیات" سے آپﷺ کی طہارت و نبوت پر حملہ کرنا، یا طلیحہ کی ناپاک فکری اولاد تسلیمہ نسرین کی ہفوات و ہرزہ سرائی، یا حال میں ڈنمارک کے اخبارات میں آپﷺ کے نازیبا ، گستاخ اور انسانیت کے لئے شرمناک کارٹون شائع کرکے آپﷺ کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناروا جسارت کرنا ہو ، یا پھر دنیا بھر کے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینی ڈکٹ کا حالیہ بیان، سب اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور آپﷺ کی محبوب شخصیت کے خلاف ایک گہری سازش اور دور حاضر میں اربوں مسلمانوں اور آپ ﷺسے انتہائی محبت کرنے والوں کے صبر وضبط کا امتحان۔
اس کے باوجود ہم مسلمانوں کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ مسلمان بنیاد پرست ہیں، جذباتی ہیں اور عصر حاضر کے ساتھ دوش بدوش چلنے سے عاجز اور صبر وضبط اور تحمل وبردباری سے عاری، اور اپنی قدیم روایات اور تہذیب وتمدن کو نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے سے انکاری، یا کھلے لفظوں میں مسلمان اپنے دین وایمان، عقائد ونظریات اور تمدن وثقافت کو پسِ پشت ڈال کر زمانہ کے رنگ میں بالکلیہ ڈھل جانے سے منکر۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس آیت کے مصداق بن جائیں: ((وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً)) (النساء: 89) "ان کی تو چاہت یہ ہے کہ جس طرح کے کافر وہ خود ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں(ایک جیسے) ہوجاؤ"۔ آئیے دیکھیں مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے تعلق سے جذباتی کیوں ہوجاتے ہیں، آخر اس کی حقیقت کیا ہے اور اسلام میں اس کا حتمی حکم کیا ہے؟ اس کا جائزہ لیتے ہیں:​ 1)
ایک مسلمان کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی اپنی جان ومال، اہل واولاد اور ماں باپ سے بڑھ کر محبوب ہونا واجب وفرض ہے، اس کے بغیر اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ خود اللہ تعالی کا ارشادہے: ((فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)) (النساء: 65) ۔ "سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ(ﷺ) کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ(ﷺ) ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی بھی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمابرداری کے ساتھ قبول کرلیں"۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين)) (بخاري: 14، مسلم: 63، نسائي: 4927) ۔ "تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں"۔
نیز امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے: ((كنا مع النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏وهو آخذ بيد ‏عمر بن الخطاب ‏‏فقال له ‏عمر ‏يارسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي فقال النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏لا والذي نفسي بيده ‏حتى أكون أحب إليك من نفسك فقال له‏عمر ‏فإنه الآن والله لأنت أحب إلي من نفسي فقال النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏الآن يا ‏عمر)) (بخاري: 6142) ۔ "ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ میرے نزدیک میری جان کے سوا دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، نہیں ! اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہاں تک کہ میں تیری جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔ یہ فرمان سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب اے عمر! کامل بن جاؤگے"۔ )
ایک مسلمان کے عقیدہ کا ایک حصہ یہ ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی جان ومال، عزت وآبرو اور جاہ ومنصب کی حفاظت سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وآبرو ، آپﷺ کے دین و شریعت، قانون وفیصلہ، حدیث وسنت کی فکری وعملی طور پر حفاظت کرے اور ان پر حملہ کرنے والوں کا ہر ممکن محاسبہ ، مقاطعہ اور مقابلہ کرنے کو اپنی سعادت تصور کرے اور اپنی ہر قیمتی سے قیمتی شے کو آپ ﷺپر قربان کردینا نجات وکامیابی کا ذریعہ سمجھے اور آپﷺ پر جان ومال نچھاور کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی سیرتِ طیبہ کو اپنے ذہن میں ہمہ وقت تازہ رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی کے تعلق سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے چند واقعات آپ کی ضیافتِ طبع کے لئے درج کئے جاتے ہیں جن سے نہ صرف صحابہ کی آپ ﷺکے ساتھ محبت ظاہر ہوگی بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور آپﷺ کے ساتھ گستاخی کرنے والوں کے بارے میں اسلام کا حکم اور موقف بھی معلوم ہوجائے گا: ۔
کعب بن اشرف ایک یہودی شاعر تھا، غزوہ بدر میں کفار مکہ کی شکست سے بہت متاثر ہوا ، مکہ جاکر قریش کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بھڑکایا، بلکہ واپس آکر اپنے اشعار سے آپ کی اور امہات المومنین کی ہجو بیان کرنا شروع کیا جس سے آپﷺ کو سخت اذیت پہنچی ، آگے بخاری ومسلم شریف کے حوالہ سے تفصیل پڑھئے: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف سے نپٹ لے، اس نے تو اللہ ورسولﷺ کو ایذا پہنچانے میں حد کردی، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ کا اشارہ اسے ختم کردینے کا ہے؟ آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا ، انہوں نے کہا کہ آپﷺ مجھے آپﷺ کے بارے میں کچھ نازیبا کلمہ کہنے کی اجازت مرحمت فرمائیے، آپ ﷺنے فرمایا: کوئی بات نہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس گئے اور کہا: اس شخص (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم سے صدقہ طلب کرکے ہمیں پریشانی میں ڈال دیا ہے، میں تم سے کچھ قرض مانگنے آیا ہوں، کعب نے کہا: بخدا تم ان سے اکتا بھی جاؤگے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے ان کو اپنا قائد ماناہے،
لہذا ہم انہیں اس وقت تک چھوڑ نہیں سکتے جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ ان کا معاملہ کہاں جاکر ختم ہوتا ہے؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک وسق یا دو وسق کھجور قرض دو۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے لیکن بطور ضمانت میرے پاس کچھ رکھو، انہوں نے کہا: بطور ضمانت تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: اپنی عورتیں ہی رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم تمہارے پاس اپنی عورتوں کو کیسے رہن رکھیں جبکہ تم عرب کے حسین ترین آدمی ہو؟ اس نے کہا: پھر اپنے بچوں کو رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم اپنے بچوں کو کیسے رکھیں، لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہوئے کہیں گے ایک دو وسق کے لئے اپنے بچوں کو گروی رکھ دیا ، یہ تو ہمارے لئے بڑی عار کی بات ہے، چلو ہم ہتھیارگروی رکھ دیتے ہیں۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے ہتھیار ہی سہی، ہاں فلاں دن لے آنا ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس رات کو گئے اور اپنے ساتھ ابو نائلہرضی اللہ عنہ جو کعب کا رضاعی بھائی تھے کو لےگئے۔ کعب نے انہیں قلعہ میں بلالیااور ان کے پاس اتر کر آنے لگا، کعب کی بیوی نے کہا: رات کو اس وقت کہاں جاتے ہو؟
میرے کان میں ایسی آواز سنائی پڑ رہی ہے جس سے خون کی بو آرہی ہے، اس نے کہا: یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے اور ایک عزت دار شخص کو اگر رات کو بھی نیزہ بازی کی دعوت دی جائے تو وہ انکار نہیں کرتا۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ دو اور آدمیوں کو لائے تھےاور ان سب کو ہدایت کی تھی کہ جب میں کعب کو مضبوطی سے دبوچ لوں تو تم اس کی گردن مار دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف تیار ہو کر اتر آیا ، اس کے کپڑوں سے خوشبو چھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آج تو بڑی خوشبو آرہی ہے، اس نے کہا: کیوں نہیں آئے گی میرے پاس عرب کی سب سے اچھی خوشبو لگانے والی عورت جو ہے۔ محمد رضی اللہ عنہ نے کہا: اجازت ہو تو میں تیرا سر سونگھ لوں؟ اس نے کہا: ہاں ہاں ضرور سونگھ لو۔ محمد رضی اللہ عنہ نے خود بھی سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھوایا۔ پھر محمد رضی اللہ عنہ نے کہا: جی چاہتا ہےکہ ایک بار اور سونگھوں۔ کعب نے کہا: کوئی بات نہیں ضرور سونگھ لو۔
پھر جب اُس نے اپناسر جھکایا تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا اور اپنےساتھیوں سے کہا: دیکھتے کیا ہو کام تمام کرو۔ اس طرح انہوں نے کعب بن اشرف کو کیفر کردار تک پہنچادیااور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوری روداد سنائی۔ (بخاری: 3731، مسلم: 3359) ایک نابینا صحابی تھے ان کی ایک غیر مسلم لونڈی تھی جو اس کے موتی جیسے دو لڑکوں کی ماں تھی اور ان سے بڑا پیار کرتی تھی اور اندھا ہونے کی وجہ سے ان پر بڑی مہربان تھی، مگر اس کے اندر سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی اور آپﷺ کومعاذ اللہ گالیاں دیا کرتی تھی، وہ صحابی رضی اللہ عنہ اسے منع کرتے تو باز نہیں آتی تھی۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر طعن کرنے اور گالیاں دینے لگی،توان جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کو اپنی ان ساری محبتوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب آئی، مارے غیرت کے وہ غلطاں وپیچاں اٹھے اور تیز دھاردار گپتی کواس کے پیٹ پر رکھا اور اوپر سے پورا وزن ڈال کر اسے قتل کردیا۔
صبح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے قتل کا اقرار کرتے ہوئے اس لونڈی کی پوری روداد سنائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا: لوگو! گواہ رہو اس نابینا کا خون معاف ہے۔ (ابوداود: 3795، نسائی: 4002) ۔ ۔ ابو رافع ایک یہودی تاجر تھا۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا (تکلیف) دیا کرتا تھا اور اپنی دولت اور اثر ورسوخ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا تھا، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف قبیلہ غطفان اور مشرکین عرب کی بہت زیادہ مالی مدد کیا کرتا تھا۔حجاز میں اس کا مضبوط قلعہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چند صحابہ کرام کو اس کا کام تمام کرنے کے لئے بھیجا، تفصیل بخاری شریف کے حوالہ سے پڑھئے: عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے چند ساتھیوں کو لے کر غروب آفتاب کے بعد ابو رافع کے قلعہ کے پاس پہنچا۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو میں قلعہ کے اندر داخل ہونے کی تدبیر کرتا ہوں، میں آگے بڑھا اور دروازے کے قریب پہنچ کر دربان کو دکھانے کے لیے قضائے حاجت کرنے کی ہیئت میں بیٹھ گیا ۔ دربان نے اعلان کیا کہ اے اللہ کے بندے! اگر تم اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو جلدی اندر آجاؤ میں دروازہ بند کرنے والا ہوں۔ میں قلعہ کے اندر داخل ہوگیا اور چھپ کر یہ دیکھنے لگا کہ دربان چابیاں کہاں رکھتا ہے، دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں ایک ستون پر لٹکا دیں ۔
میں اٹھا اور چابیاں اپنے قبضہ میں کرلیں۔ ابو رافع رات کو بیٹھ کر لوگوں سے قصےکہانیاں سنتا تھا، کہانیوں کی مجلس جب ختم ہوئی اور سب لوگ چلے گئے تو میں ابو رافع کے محل کی طرف اٹھا اور ہر دروازہ کو کھول کر اندر سے بند کرتا چلا گیا کہ اگر قلعہ کے لوگوں کو میرے بارے میں علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ مجھ تک نہ پہنچ سکے جب تک کہ میں ابو رافع کو قتل نہ کرلوں۔ جب میں اس کے خاص فرودگاہ میں پہنچ گیا تو دیکھا کہ کمرہ میں بالکل اندھیرا ہے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہے، تاریکی کی وجہ سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ابو رافع کہاں ہے، میں نے آواز دی: ابو رافع ! وہ بولا: کون ہے؟ میں نےاس کی آواز کو نشانہ بناکر تلوار سے وار کردیا ، وہ چیخا، میں گھبراکر کمرہ سے باہر نکل گیا اور رک گیا، پھر دوبارہ داخل ہو کر آواز دی: ابورافع ! یہ کیسی آواز ہے؟
اس نے کہا: تیری ماں مرے، کسی نےتھوڑی دیر پہلے مجھ پر تلوار سے وار کیا ہے، پھر میں نےاس پر وار کیا اور خون آلود کردیا لیکن وہ مرا نہیں،پھر میں نے تلوار کا سرا اس کے پیٹ پر رکھا اور پیٹھ سے نکال دیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہ بچ نہیں سکتا۔اب میں دروازہ کھولتا جاتا تھا اور باہر نکلتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب میں آخری سیڑھی پر پہنچا تو سمجھا کہ زمین پر پہنچ گیا ہوں اور اس طرح زمین پر دھڑام سے گرا تو میری پنڈلی ٹوٹ گئی ،میں نے اپنے عمامہ سے اسے باندھا اور دروازہ پر آکر بیٹھ گیا، میں نے کہا: میں رات کو نہیں نکلوں گا یہاں تک کہ پورا یقین کرلوں کہ میں نے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔صبح جب مرغ نے بانگ دی اور ایک آدمی نے قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر اعلان کیا کہ اہلِ حجاز کا مشہور تاجر مارا گیا ہے، تو میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا بھاگ نکلو ، اللہ نے ابو رافع کا کام تمام کردیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر میں نے پوری روداد سنائی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنا پیر پھیلاؤ، میں نے اپنا پیر پھیلادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمیرے پیر پر اپنا دست مبارک پھیرا تو اس طرح اچھا ہوگیا کہ جیسے اس سے پہلے کچھ ہوا ہی نہی۔ (بخاری: 3733) ۔
پیارے بھائیو! بات تھوڑی لمبی ہوگئی مگر اس تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ گستاخِ رسول اور آپﷺ کی توہین کرنے والے واجب القتل ہیں، یہی فتوی ماضی میں صحابہ میں خلیفہ ثانی سیدناعمر فاروق، ابن عباس، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اور تابعین میں پانچویں خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ اور اماموں میں امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ نے بھی شاتم رسول کو مستحقِ قتل قرار دیا ہے، امام ابوحنیفہ نے بھی مستحق قتل کہا ہے، لیکن اگر ذمی ہے تو اسے وہ توبہ کی مہلت دیتے ہیں۔ امام ابن المنذر اور امام خطابی رحمہما اللہ نے شاتمِ رسول اور اہانتِ رسول کے مرتکب کے واجب القتل ہونے میں تمام مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی مایہ ناز تصنیف الصارم المسلول اور امام خطّابی رحمہ اللہ کی معالم السنن میں دیکھئے) ۔
آج جب ذرائع ابلاغ اور وسائل اعلام میں یورپ وامریکہ اور مغربی دنیا اوراس کے زرخرید غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز کارٹون اور پوپ بینی ڈکٹ کے متنازعہ مبینہ بیان پر مسلمانوں کے احتجاج پر واویلا مچارہے ہیں تو اس سے مسلمانوں کو مرعوب اور احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئےاور پوری قوت اور شرح صدر کے ساتھ اپنا موقفصحیح انداز سے بیان کرنا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ اقوام متحدہ کے 1948ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ 18 کے مطابق: "ہر آدمی خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے"----- مگر "اس اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کوئی شخص دوسروں کی دل آزاری کرے"۔ اُن کے جذبات سے ،مقدّسات سے کھلواڑ کرے۔ غور کا مقام ہے کہ کیا اس زمرے میں دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان نہیں آتےکہ ان کے محبوب رسولﷺ کی اہانت وتضحیک کرکے ان کی دل آزاری، حقوق تلفی کی جارہی ہے؟ جب کسی ملک کے آئین کی توہین قابل ِسزا جرم ہے ، جب کسی دیش کے بابائے قوم کی توہین کرنے والا مستحقِ سزا ہے، جب کسی ملک کے جھنڈے کی بے حرمتی خلافِ قانون حرکت مانی جاتی ہے اور اس کا یہ قصور قابلِ سزا ہے، تو پھر دنیا کے سب سے بڑے محسن، انسانیت کے نجات دہندہ، عورتوں کے حقوق کے ضامن و محافظ، رنگ ونسل کے جاہلی امتیاز وفرق کو پیروں تلے روندنے والے، امن وامان عالَم کے داعی،انسانیت کے مشاکل کی گتھیوں کو چٹکیوں میں سلجھانے والے، دنیا کی تمام خوبیوں کے حامل انسان اور سب سے بڑھ کر تمام قابل احترام ہستیوں ،انبیاء اور رسولوں ، دانشوروں، فلاسفراورحکماءکے امام سید ولدِ آدم محمّد رسول اللہ ﷺکی اہانت وگستاخی قابلِ سزا اور واجب القتل کیوں نہیں ہوگی؟

تحریر: مشتاق احمد كريمي
 
Last edited by a moderator: