مستقل قومی مصیبت
ماسٹر صاحب کو ملک عزیز میں ناسور کی مانند پھیلے مختلف مسائل کے پیچھے کارفرما ہاتھ کا نام ” مستقل قومی مصیبت “ کیا ملا انہوں نے پھر جرات کرلی اور میرے ہاتھ یہ مضمون تھما گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا شاگردی کاحق توکرنا ہی تھا ادا، اس لئے آپ احباب کی خدمت میں مستقل قومی مصیبت کی اصطلاح لئے حاضر ہونا ہی پڑا کیونکہ کل جو شخص ماسٹر صاحب کے ڈنڈے سے ڈرتا تھا وہ آج بھی ان کی ڈانٹ سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب جب بولنے پر آئیں تو ایکسپریس کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مستقل مزاجی اب تک اتنی ہے کہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ تو ختم ہو جاتا ہے اورمگر حضور ماسٹر صاحب کی گفتگو کا میچ ختم نہیں ہوتا جب تک مستقل قومی مصیبت کا وجود ہے ماسٹر
صاحب بولتے رہیں گے اور ان کے شاگرد مجھ جیسے نالائق جو آج تک ماسٹر کے ساتھ ماسٹر صاحب لکھتے ، کہتے ہیں جو ان کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں وہ اپنے ماسٹرصاحب کی کہی اک اک بات آپ احباب تلک پہنچاتے رہیں گے۔ صاحب ہم تو ٹھہرے کراچی کے جو کبھی برقی سہاروں پر قمقماتی روشنیوں کے بہت سے جگنو اپنے دامن میں سجا کر روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ مگر آج چراغوں اور موم بتیوں کا شہر بھی نہیں رہ سکا ہے۔ ظاہر ہے کیسے رہ پاتا کراچی روشنیوں کا شہر ۔۔۔ جب اس کی کوکھ پرلسانیت کا عفریت آن بیٹھا۔ جب مٹھی بند کئے ہاتھوں کی ہتھیلیاں کھول دی گئیں اور پانچوں انگلیاں مختلف سمتوں میں اٹھ گئیں تب ہر ہر سمت پر اپنے ہی اپنے قاتل نظر آنے لگے، بدگمانی کی سیاہی نے سوچ کے ہر سورج کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ وقت گزرتا رہا انسان زندہ رہ کر بھی مرتا رہا ۔اور پھر شہر و ملک کی تاریخ میں وہ سیاہ دن بھی آیا جب مستقل قومی مصیبت کے عفریت نے جنم لیا۔ کسی نے اس کو پڑوس کا ناجائز مگر لاڈلہ بیٹا کہا تو کسی نے اس کو برہنہ یورپ کی سازشی سوچ کا عکس کہا۔۔۔ مگر یقین مانیں یہ جو بھی ہے ، جس سے بھی اس کا تعلق ہے یہ ملک عزیز کے اندرونی مسائل میں نمایاں طور پر اور بہت کامیابی سے اپنی جگہ مستقل بنیاد پر بنا چکا ہے۔۔۔۔
ہوا ناں افسوس ۔۔۔ یہ جان کر؟؟؟ ، ماسٹر صاحب کو بھی اسی افسوس نے وقت سے پہلے مار ڈالا ہے مگر کچھ ہو جائے وہ امید کے چراغ گل کرنے کو آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ غنڈہ گردی، سڑکوں پر عام ہوتی برہنگی، انسانیت پر قائم ہوتا حیوانیت کا راج، لہو سے رنگین گلیاں اور ماﺅں کے چھاتی پیٹتے ہاتھ بھی اُن کے امید کے روشن چراغوں کو بجھا نہیں سکتے۔ نااہل کی سربراہی، عوام کی نیند ، انسانیت پر طاری مستقل خاموشی بھی ان کو خاموش نہیں کر پاتی۔ وہ بولتے ہیں تو خوف آتا ہے اور خوف آنا بھی لازم ہوا کیونکہ ملک عزیز کے عوام اور بالخصوص کراچی کی بزدل فضا میں پلا بڑا ہوں تو خوف تو آنا ہی ہے ماسٹر صاحب کی سچ اگلتی زبان سے، جو یہ نہیں دیکھتی وہ بند کمرے میں سچ اگل رہی ہے یہ بھرے بازار میں گلو بھیا کی دودھ کی دوکان پر اپنا کام کر رہی ہے۔۔۔ فخر ہوتا ہے اُن کا شاگرد ہوکر مگر ایسے حالات میں بہت ڈر لگتا ہے کہیں اُن کا شاگرد ہونا بہت مہنگا نہ پڑ جائے۔
مگر اپنی بنیادوں سے پیوستہ ہونے کی وجہ سے راہ فرار کی تلاش بھی ممکن نہیں ہو پاتی۔اور فرار ہوکر جائیں بھی کہاں ؟؟؟ دبئی، ملائیشیا، بنکاک، جنوبی افریقہ، انگلستان غرض ہر جگہ تو مستقل قومی مصیبت کے سائے نظر آتے ہیں۔ نامعلوم افراد سے لیکر نامعلوم گناہوں تک ایک ہی نام سر فہرست نظر آتا ہے۔ نوجوان بدنام، بزرگ بکواس، بچے برباد اور میری زمین بد حال۔۔۔۔ معاشرے کی کتنی ہی برائیاں مستقل قومی مصیبت کی آغوش میں پناہ لئے نظر آتی ہیں۔ جتنا لکھ ڈالوں کم ہے ، مگر آج لکھنے تھوڑی بھیجا گیا ہے مجھے ۔ آج تو مجھے آپ احبا ب کی خدمت میں نیا نام دینے بھیجا گیا تھا جو آپ تک پہنچا دیا۔ پسند آئے تو ضرور تائید فرمائیں اور خوفزدہ ہیں تو مسکرا کر دعا ہی کر دیں میرے اور میرے ماسٹر صاحب کے واسطے۔۔۔ اور اگر خاموشی کی دیوار توڑ سکتے ہیں ، خوف کی اوڑھی چادر اتار پھینک سکتے ہیں تو بس فلک شگاف نعرہ ہی بلند کردیں مستقل قومی مصیبت کے خلاف کہ شاید کوئی اور بھی جاگ جائے، ہمت پکڑ جائے اور ماسٹر صاحب بن جائے۔۔۔۔ اچھا اب اجازت دیں۔۔
ارے کیا کہا ۔۔ زلیخا مر د تھی یا عورت؟؟؟ ارے صاحب اتنا پڑھ کر ، میرا اتنا لکھا ضائع تو نہ کرو۔۔۔ ارے اور دکھ کی بات کہہ ڈالی اردو پلے نہیں پڑی ۔۔۔ اچھا دوستوں میں انگریزی میں لکھ دیتا ہوں ۔۔۔۔ آپ خود سمجھ لینا
Mustaqil Qoumi Musibat
چوروں کو حمایت ہے صاحب یہ کراچی ہے
رہزن کی قیادت ہے صاحب یہ کراچی ہے
مقتل سی یہاں گلیاں کہتی یہ حقیقت ہیں
لاشوں کی تجارت ہے صاحب یہ کراچی ہے
ظالم کی حمایت ہے مظلوم کی خاموشی
نگری میں یہ حالت ہے صاحب یہ کراچی ہے
اخبار نہیں ڈرتے وہ جھوٹ نہیں کہتے
جھوٹی یہ صداقت ہے صاحب یہ کراچی ہے
مقتول بھی اپنا تھا قاتل بھی رہا اپنا
قائد کی عنایت ہے صاحب یہ کراچی ہے