مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کی پروفائلنگ

shamsheer

Senator (1k+ posts)
مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کی پروفائلنگ


090814071113_orissa_minorities_226.jpg
بھارت میں عیسائیوں کو کئی بار نشانا بنایا گیا ہے


بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کا الزام ہے کہ وہاں پولیس ان کی مذہبی، معاشی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ قوم پرست جماعتیں انہیں ہراساں کرنے کے لیے کسی نئے موقع کی تلاش میں ہوں۔
لیکن ریاست کے پولیس سربراہ سنجے راؤت نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ سروے اب روک دیا گیا ہے اور پورے معاملے کی تفتیش کی جارہی ہے۔
سنجے راؤت کے مطابق اس سروے کا حکم ان کے ماتحت افسران نے دیا تھا جو ایک ’غلطی‘ تھی اور ریاستی حکومت کو اس کا علم نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ مقامی آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس سروے کا حکم کیوں دیا گیا تھا۔
پولیس کی جانب سے یہ کارروائی تقریباً دو ہفتے قبل شروع کی گئی تھی جس میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے بارے میں اس انداز میں معلومات جمع کی جارہی ہے جیسے جرائم پیشہ لوگو ں کے بارے میں کی جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے اس بات کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا کہ یہ معلومات کس کی ہدایت پر جمع کی جارہی ہے اور اس کا کون استعمال کرے گا؟’
مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ بی جے پی کی اتحادی تنظیمیں اکثر عیسائی مشنریوں پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ قبائیلی علاقوں میں لوگوں کو عیسائی مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں ملک کی کئی ریاستوں میں عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
وسطی ریاست میں عیسائیوں کے ایک رہنما فادر آنند منٹونگل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے یہ کارروائی تقریباً دو ہفتے قبل شروع کی گئی تھی۔ ’کارروائی میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے بارے میں اس انداز میں معلومات اکھٹا کی جارہی ہے جیسے جرائم پیشہ لوگو ں کے بارے میں کی جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے اس بات کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا کہ یہ معلومات کس کی ہدایت پر جمع کی جارہی ہے اور اس کا کون استعمال کرے گا‘
انہوں نے کہا کہ ’ قوم پرست تنظیموں نے مذہب تبدیل کرنے کے الزام کی آڑ میں ہمیں بہت پریشان کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اب کوئی اور موقع تلاش کر رہے ہوں۔‘
ریاستی پولیس عیسائیوں کی کل آبادی، سیاسی وابستگی یا انہیں حاصل سرپرستی، گرجا گھروں کی کل تعداد اور مشنری سکولوں کی فنڈنگ کے بارے میں معلومات اکھٹا کر رہی تھی۔
اس سے پہلے ریاستی دارالحکومت بھوپال سے ملنے والی اخباری اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں بائیس مارچ کو پولیس کے صدر دفتر سے ایک حکم نامہ جاری گیا تھا جس میں پولیس تھانوں کے سربراہوں کو دس دن کے اندر یہ سروے مکمل کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
انگریزی کے اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق یہ سروے ضلع اور تحصیل کی سطح پر کیا جا رہا تھا اور اس میں یہ معلومات یکجا کی جارہی تھی کہ ریاست میں عیسائیوں کی کل کتنی آبادی ہے، وہ کہاں رہتے ہیں اور ان کی معاشی حالت کیسی ہے، عیسائی ادارے کتنے سکول چلاتے ہیں اور انہیں فنڈنگ کہاں سے حاصل ہوتی ہے، ریاست میں کتنے گرجا گھر ہیں۔
ان کے سربراہوں کے بارے میں معلومات، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عیسائیوں کے نام اور یہ کہ کیا انہیں کسی سیاست دان کی سرپرستی حاصل ہے۔ اور ایسے علاقوں کی تفصیل جنہیں عیسائیوں کی آبادی کی وجہ سے حساس تصور کیا جاسکتا ہے۔
عیسائیوں کے خلاف تشدد کا سب سے اندوہ ناک واقعہ اڑیسہ میں پیش آیا تھا جہاں ایک آسٹریلوی پادری گراہم سٹینز اور ان کے دو بیٹوں کو ان کی گاڑی میں بند کرکے زندہ جلا دیا تھا تھا۔ اس کیس کے اصل ملزم دارا سنگھ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔