قادیانی جماعت محمد رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتی۔ ان کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی ان کا نبی ہے۔ 1974 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے، ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا گیا جو اب تک برقرار ہے۔
قادیانیوں کے روحانی پیشوا اور خلیفہ مرزا مسرور کے مطابق عمران خان نے جب تحریک انصاف بنائی تو نہ صرف اس زمانے میں مرزا مسرور سے درخواست کی کہ وہ الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ دیں، بلکہ 2013 کے الیکشن سے قبل، عمران خان نے اپنی جماعت کی ایک عہدہ دار نادیہ رمضان چوہدری کو مرزا مسرور کی بارگاہ میں ایک بار پھر بھیجا اور قادیانی جماعت کی سیاسی حمایت (ووٹ) کا مطالبہ دہرایا۔ مرزا مسرور نے عمران خان کی درخواست کو ایک بار پھر یہ کہہ کر رد کر دیا کہ قادیانی جماعت غیر مسلم کی حیثیت سے ووٹ دینا نہیں چاہتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی قادیانی جماعت کنگ میکر ہے جو عمران خان اس کے آگے اتنا بچھا جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی طاقت عمران خان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ قادیانی حمایت حاصل کرے۔ عمران خان کی سیاسی پیدائش اور ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے۔ قادیانیت کی پیدائش تاج برطانیہ نے ہندوستان میں کی۔ قادیانیت کو پناہ بھی برطانیہ میں ملی (قادیانی خلافت کا مرکز)۔ عمران خان کی سیاست کا آغاز بھی برطانیہ سے ہوا۔ عمران کو سیاست میں لانے والے برطانوی یہودی (گولڈ اسمتھ خاندان) تھے۔ عمران خان کی دوسری بیوی ریحام بھی پاکستان آنے سے پہلے برطانیہ میں مقیم تھیں۔ عمران خان کی جماعت کو ایک لحاظ سے قابو کرنے والی ایک اور اہم شخصیت چوہدری سرور کی ہے۔ موصوف برطانیہ میں سیاست کرتے تھے اور پھر اچانک ان کو پاکستان سے محبت ہو گئی۔ چوہدری صاحب پہلے نون لیگ میں برطانیہ کے نمائندے بن کر گورنر لگے، پھر میر جعفری اور میر صادقی کے بعد باقاعدہ طور پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ تحریک انصاف کا پراسرار حصہ بننے والے ایک اور ایجنٹ کا نام زلفی بخاری ہے جس کے بغیر عمران خان عمرہ کرنے بھی نہیں جاتا۔ یہ زلفی بخاری بھی برطانیہ سے بھیجا گیا تحفہ ہے۔
اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ عمران خان اور برطانیہ کے بیچ میں ایک گہرا تعلق ہے، اتنا ہی گہرا جتنا برطانیہ سرکار اور قادیانیت کے بیچ میں ہے۔
دھرنا 2013 کے دنوں میں بھی عمران خان نے ایک قادیانی کو اپنا فنانس منسٹر بنانے کی بات کی تھی، اس فنانس منسٹر کا نام جہانگیر ترین عمران کے کان میں وسوسے کی طرح ڈالتا ہوا پایا گیا تھا۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محمد ﷺ کی ذات اور نبوت پر ہمارا ایمان کتنا پختہ ہے۔
کیا ہم عمران خان جیسے شخص کو ووٹ دے کر اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی لعنت کے حقدار بننا چاہتے ہیں؟ جو فرقہ نبی ﷺ کی نبوت کا مذاق بنائے، جو مذہب اسلام کا تشخص مٹانے کے لیے دن رات اپنی ناپاک کوششوں میں مصروف ہو، عمران خان اس فرقے کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بے قرار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم قادیانیت کے شانہ بشانہ تحریک انصاف میں شامل ہیں یا پھر ہمیں مسلمانوں کی صفوں سے صفیں ملا کر کھڑے ہونا ہے اور 25 جولائی 2018 کو قادیانیت کے حمایتی عمران خان کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان کا ایک مشہور چیلہ، حمزہ علی عباسی، قادیانیوں کی غیر مسلم حیثیت کو اپنے ٹی وی پروگرام کے ذریعے چیلنج کر چکا ہے۔
چیلنج: اگر تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ نادیہ رمضان چوہدری سے غلطی ہوئی اور اس نے عمران خان کی ہدایت پر قادیانی پیشوا مرزا مسرور سے تحریک انصاف کے لیے حمایت اور ووٹوں کا مطالبہ نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں مرزا مسرور سے ملی تھی، تو چلیں ایک سیکنڈ کے لیے اس مفروضے کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مگر بات جوں کی توں ہے۔
مرزا مسرور کا وضاحتی بیان بھی آنا چاہیے کہ اس نے عمران خان پر جھوٹا الزام لگایا تھا کہ تحریک انصاف کے قیام کے وقت عمران خان نے اپنا نمائندہ بھیج کر قادیانی کمیونٹی کی حمایت اور ووٹوں کا مطالبہ کیا تھا۔
اگر مرزا مسرور ایسا کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کرتا تو پھر تحریک انصاف مرزا مسرور کے خلاف عمران خان کو بدنام کرنے، جھوٹا الزام لگانے اور ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرے۔
اور اگر تحریک انصاف ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر ہم بلا شک وشبہ اس بات پر یقین کریں گے کہ عمران خان قادیانیت کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
قادیانیوں کے روحانی پیشوا اور خلیفہ مرزا مسرور کے مطابق عمران خان نے جب تحریک انصاف بنائی تو نہ صرف اس زمانے میں مرزا مسرور سے درخواست کی کہ وہ الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ دیں، بلکہ 2013 کے الیکشن سے قبل، عمران خان نے اپنی جماعت کی ایک عہدہ دار نادیہ رمضان چوہدری کو مرزا مسرور کی بارگاہ میں ایک بار پھر بھیجا اور قادیانی جماعت کی سیاسی حمایت (ووٹ) کا مطالبہ دہرایا۔ مرزا مسرور نے عمران خان کی درخواست کو ایک بار پھر یہ کہہ کر رد کر دیا کہ قادیانی جماعت غیر مسلم کی حیثیت سے ووٹ دینا نہیں چاہتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی قادیانی جماعت کنگ میکر ہے جو عمران خان اس کے آگے اتنا بچھا جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی طاقت عمران خان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ قادیانی حمایت حاصل کرے۔ عمران خان کی سیاسی پیدائش اور ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے۔ قادیانیت کی پیدائش تاج برطانیہ نے ہندوستان میں کی۔ قادیانیت کو پناہ بھی برطانیہ میں ملی (قادیانی خلافت کا مرکز)۔ عمران خان کی سیاست کا آغاز بھی برطانیہ سے ہوا۔ عمران کو سیاست میں لانے والے برطانوی یہودی (گولڈ اسمتھ خاندان) تھے۔ عمران خان کی دوسری بیوی ریحام بھی پاکستان آنے سے پہلے برطانیہ میں مقیم تھیں۔ عمران خان کی جماعت کو ایک لحاظ سے قابو کرنے والی ایک اور اہم شخصیت چوہدری سرور کی ہے۔ موصوف برطانیہ میں سیاست کرتے تھے اور پھر اچانک ان کو پاکستان سے محبت ہو گئی۔ چوہدری صاحب پہلے نون لیگ میں برطانیہ کے نمائندے بن کر گورنر لگے، پھر میر جعفری اور میر صادقی کے بعد باقاعدہ طور پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ تحریک انصاف کا پراسرار حصہ بننے والے ایک اور ایجنٹ کا نام زلفی بخاری ہے جس کے بغیر عمران خان عمرہ کرنے بھی نہیں جاتا۔ یہ زلفی بخاری بھی برطانیہ سے بھیجا گیا تحفہ ہے۔
اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ عمران خان اور برطانیہ کے بیچ میں ایک گہرا تعلق ہے، اتنا ہی گہرا جتنا برطانیہ سرکار اور قادیانیت کے بیچ میں ہے۔
دھرنا 2013 کے دنوں میں بھی عمران خان نے ایک قادیانی کو اپنا فنانس منسٹر بنانے کی بات کی تھی، اس فنانس منسٹر کا نام جہانگیر ترین عمران کے کان میں وسوسے کی طرح ڈالتا ہوا پایا گیا تھا۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محمد ﷺ کی ذات اور نبوت پر ہمارا ایمان کتنا پختہ ہے۔
کیا ہم عمران خان جیسے شخص کو ووٹ دے کر اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی لعنت کے حقدار بننا چاہتے ہیں؟ جو فرقہ نبی ﷺ کی نبوت کا مذاق بنائے، جو مذہب اسلام کا تشخص مٹانے کے لیے دن رات اپنی ناپاک کوششوں میں مصروف ہو، عمران خان اس فرقے کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بے قرار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم قادیانیت کے شانہ بشانہ تحریک انصاف میں شامل ہیں یا پھر ہمیں مسلمانوں کی صفوں سے صفیں ملا کر کھڑے ہونا ہے اور 25 جولائی 2018 کو قادیانیت کے حمایتی عمران خان کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان کا ایک مشہور چیلہ، حمزہ علی عباسی، قادیانیوں کی غیر مسلم حیثیت کو اپنے ٹی وی پروگرام کے ذریعے چیلنج کر چکا ہے۔
چیلنج: اگر تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ نادیہ رمضان چوہدری سے غلطی ہوئی اور اس نے عمران خان کی ہدایت پر قادیانی پیشوا مرزا مسرور سے تحریک انصاف کے لیے حمایت اور ووٹوں کا مطالبہ نہیں کیا تھا، بلکہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں مرزا مسرور سے ملی تھی، تو چلیں ایک سیکنڈ کے لیے اس مفروضے کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مگر بات جوں کی توں ہے۔
مرزا مسرور کا وضاحتی بیان بھی آنا چاہیے کہ اس نے عمران خان پر جھوٹا الزام لگایا تھا کہ تحریک انصاف کے قیام کے وقت عمران خان نے اپنا نمائندہ بھیج کر قادیانی کمیونٹی کی حمایت اور ووٹوں کا مطالبہ کیا تھا۔
اگر مرزا مسرور ایسا کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کرتا تو پھر تحریک انصاف مرزا مسرور کے خلاف عمران خان کو بدنام کرنے، جھوٹا الزام لگانے اور ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرے۔
اور اگر تحریک انصاف ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر ہم بلا شک وشبہ اس بات پر یقین کریں گے کہ عمران خان قادیانیت کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔