محبت اس کو کہتے ہیں ۔۔۔!

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
قریش میں کوئی ابو سفیان کی حکم عدولی کا تصور نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کی اپنی بیٹی اُمّ حبیبہ رملہ نے اپنے باپ کے خداﺅں کا انکار کرکے اس کی خوش فہمی کو خاک میں ملا دیا اور یہ اور ان کا شوہر عبداللہ بن جحش دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ان پر مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر قریش کا ظلم و ستم ان کے قدم اکھاڑ نہ سکا۔ مسلمانوں پر جب مکہ کی زمین تنگ کر دی گئی تو حضور اکرم pbuh نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ رملہ بنت ابو سفیان اور ان کا شوہر مہاجرین حبشہ میںسر فہرست تھے۔ سرداران قریش کو یہ بات بڑی شاق گزری کہ مسلمان ان کے ہاتھوں سے نکل کر حبشہ میں چین و آرام کی زندگی بسر کریں گے لہٰذا انہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اپنے قاصد بھیجے تاکہ وہ اسے مسلمانوں کے خلاف ورغلائیں۔ نجاشی نے قاصدوں کی زبانی اپنے مذہب کے بارے میں باتیں سن کر مہاجرین سے ان کے دین کی حقیقت اور حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ حضرت مریم علیھا السلام کے متعلق نظریات معلوم کئے۔ نجاشی کو جب حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریمؑ سے متعلقہ چند آیات مبارکہ سنائی گئیں تو وہ زارو قطار رویا کہ آنسوﺅں سے اس کی داڑھی بھیگ گئی اور پھر مسلمانوں سے کہا کہ یہ آیات جو محمد pbuh پر نازل کی کی گئیں اور وہ پیغام جو حضرت عیسیؑ پر نازل کیا گیا ، بالکل اس نور کی طرح یکساں ہے جو ایک منبع سے پھوٹ رہا ہو، پھر اس نے محمد رسول اللہ pbuh کی صداقت کا برملا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کو امان کی ضمانت دے دی ۔۔۔ حبشہ پہنچ جانے کے بعد اُم حبیبہؓ کے دل میں خیال آیا کہ اب دکھوں کے دن بیت چکے، اپنے شوہر کے ساتھ امن کی زندگی گزاریں گی لیکن آنے والا وقت پہلے سے بھی زیادہ کٹھن ثابت ہوا۔ ان کا شوہر مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور شراب نوشی میں دھت رہنے لگا۔ پردیس میں اُم حبیبہ ؓ کی زندگی تنگ ہو گئی۔ ان کے سامنے تین صورتیں تھیں، یا تو وہ بھی عیسائی ہو جائیں یا اپنے باپ کے پاس مکہ لوٹ جائیں اور کفر و شرک کی زندگی گزاریں اور یا پھر سرزمین حبشہ میں تنہا زندگی گزار دیں۔ انہوں نے ایمان کو ترجیح دی اور اللہ کے حکم کے انتظار میں تنہائی کے دن گزارنے لگیں۔ اللہ کو اس بی بی کی محبت و ایثار کی ادا بھا گئی اور چند روز بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ یہی نہیں اللہ اتنے مہربان ہو گئے کہ دوجہاں کی دولت اس بی بی کی جھولی میں ڈال دی۔ وہ ایک حسین شام تھی جب پر مست ہوائیں جھوم جھوم کرشادمانی کے نغمے گا رہی تھیں۔ بی بی اُم حبیبہ ؓ حسب معمول عبادت میں مصروف تھیں کہ ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے شاہ حبشہ کی خادمہ ابرہہ کو کھڑا پایا۔ اس نے جھک کر سلام کیا ، پھر بادشاہ سلامت کا سلام اور پیغام پہنچاتے ہوئے کہا کہ محمد رسول اللہ pbuh نے آپ کو اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حضور نے بادشاہ سلامت کو ایک خط لکھا ہے ، جس میں ان کو عقد کے لئے اپنا وکیل مقرر کیا ہے، آپ بھی جسے چاہیں اپنا وکیل بنا لیں۔ بی بی ؓ کے لئے ابرہہ رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئی۔ وہ پیغام نہیں بلکہ دونوں جہانوں کے خزانے ساتھ لائی تھی ۔۔۔ ہر طرف سے ایک ہی صدا سنائی دے رہی تھی محبت کرنے والو، محبت اس کو کہتے ہیں ۔۔۔! نجاشی کے پیغام نے اُمّ حبیبہ کی روح کو گل و گلزار بنا دیا۔ خوشی سے ان کا دل بے قابو ہوئے جا رہا تھا۔ انہیں اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ فرطِ جذبات میں خادمہ کی بلائیں لینے لگیں ، اسے دعائیں دینے لگیں اور اپنے سونے کے کنگن، چاندی کے پازیب، سونے کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر خادمہ کو بطور تحفہ دے دیں۔ اُمّ حبیبہ ؓ کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ دنیاکے خزانے کی مالک ہوتیں تو وہ بھی اس خادمہ پر نچھاور کر دیتیں ۔۔۔ اُم حبیبہ ؓ کی حضور کے ساتھ شادی دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد شادی ہے۔ شاہ حبشہ کے سبزہ زار اور سایہ دار درختوں کے جھرمٹ میں واقع عالیشان محل کے ایک خوبصورت اور آراستہ و پیراستہ وسیع ہال میں شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ حبشہ میں موجود صحابہ کرام ؓ اس پُروقار تقریب میں شریک ہوئے۔ شاہ نجاشی نے نکاح پڑھایا اور زوجہ رسول کی خدمت میں حضور کی جانب سے چار سو دینار مہر پیش کیا۔ نکاح کے بعد صحابہ کرام ؓ اپنے گھروں کو تشریف لے جانے لگے تو نجاشی نے کہا کہ انبیاءکرام ؑ کی سنت ہے کہ جب وہ شادی کرتے تو مہمانوں کو کھانا کھلایا کرتے، میں رسول اللہ pbuhکی جانب سے آپ سب کو دعوت دیتا ہوں ۔۔۔ اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ نے مہر کی رقم میں سے پچاس دینار شاہ حبشہ کی خادمہ ابرہہ کو بھیج دئیے۔ تحفہ وصول کرنے کے بعد ابرہہ زوجہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کے دئیے ہوئے تمام تحائف بصد شکریہ لوٹاتے ہوئے کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت نے آپ سے تحائف لینے سے منع کر دیا ہے اور اپنی بیگمات کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود قیمتی عطریات آپ کی خدمت میں پیش کریں۔ دوسرے روز ابرہہ بیش بہا عطریات لئے بی بی ؓ کی خدمت میں پہنچی تو کہنے لگی کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ اُمہات المومنین اُم حبیبہؓ نے پوچھا کہو کیا بات ہے؟ ابرہہ نے بڑی رازداری کے ساتھ کہا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپ جب حضور pbuh کے پاس جائیں تو میرا سلام پہنچا دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ میں آپ پر ایمان لا چکی ہوں۔ خدارا میرا پیغام پہنچانا مت بھولئے گا ۔۔۔ بی بی ؓ نے اسے یقین دہانی کرائی اور پھر دونوں نے مل کر سفر کے لئے سامان باندھا ۔۔۔ بی بی ؓ فرماتی ہیں کہ میں جب دور دراز کا سفر طے کرتے ہوئے رسول اللہpbuh کی خدمت اقدس میں پہنچی تو آپ کو تقریب نکاح کی دلفریب داستان سنائی اور خادمہ ابرہہ کا سلام بھی عرض کیا۔ خادمہ کے اسلام لانے کی باتیں سن کر آقا نامدار pbuh مسکرا دئے اور سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا وعلیہا السلام و رحمةاللہ و برکاتہ۔۔۔! محبت کرنے والو ۔۔۔ محبت اس کو کہتے ہیں ۔۔۔
 

rajakhanmd

Senator (1k+ posts)
Abu-Sufyan before he embraced Islam, visited Hazrat Umme Habiba in Madina and when he was about to sit on the Holy Prophet's (SAWS) bed, she (R.A) rolled away the bed. Abu-Sufyan did not like this. He said, “You have rolledaway the bed so that I may not sit on it?” “Yes, because you are an idolator, and therefore you are not clean enough to sit on the clean and chaste bed of the Holy Prophet of Allah”.Abu-Sufyan got offended on this reply and said,“I could not imagine you have changed so much”.
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
ہماری نبی سے محبت کا معیار کیا ہے
ہم محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے
مگر عمل کتنا کرتے ہیں
نبی سے محبت کرنے والا ہی آخرت میں آپ کا پڑوسی ہوگا
 

shehreyar

MPA (400+ posts)
Allah tala hum sab ko saf or sacha islam bakhshay or hamarya emaon ko or mazbut or pakizah karday or hum ko panjgana namaz ada karnay ki tufeeq day aamien
 

Back
Top