Amal
Chief Minister (5k+ posts)
متقیوں کے اوصاف
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْـرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۚ لِلَّـذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّـهِـمْ جَنَّاتٌ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ بَصِيْـرٌ بِالْعِبَادِ - [FONT=&]سورۃ آل عمران[/FONT][FONT=&]-[/FONT][FONT=&]15 [/FONT]
کہہ دے کیا میں تم کو اس سے بہتر بناؤں، پرہیزگاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک عورتیں ہیں اور اللہ کی رضا مندی ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔
اَلَّـذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُـوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ -16
وہ جو کہتے ہیں اے رب ہمارے! ہم ایمان لائے ہیں سو ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
اَلصَّابِـرِيْنَ وَالصَّادِقِيْنَ وَالْقَانِتِيْنَ وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْتَغْفِـرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ -17
وہ صبر کرنے والے ہیں اور سچے ہیں اور فرمانبرداری کرنے والے ہیں اور خرچ کرنے والے ہیں اور پچھلی راتوں میں گناہ بخشوانے والے ہیں۔
متقیوں کا تعارف
اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں اے پروردگار ہم تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، ہمارے اس ایمان کے باعث جو تیری ذات اور تیری شریعت پر ہے تو ہمارے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے، یہ متقی لوگ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں اور حرام چیزوں سے الگ رہتے ہیں، صبر کے سہارے کام لیتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے میں بھی سچے ہیں، کل اچھے اعمال بجا لاتے ہیں خواہ وہ ان کے نفس کو کتنے بھاری پڑیں، اطاعت اور خشوع خضوع والے ہیں، اپنے مال اللہ کی راہ میں جہاں جہاں حکم ہے خرچ کرتے ہیں، صلہ رحمی میں رشتہ داری کا پاس رکھنے میں برائیوں کے روکنے آپس میں ہمدردی اور خیرخواہی کرنے میں حاجت مندوں ، مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے میں سخاوت سے کام لیتے ہیں اور سحری کے وقت پچھلی رات کو اٹھ اٹھ کر استغفار کرتے ہیں .
، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت استغفار افضل ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت میں حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہی فرمایا تھا کہ (آیت سوف استغفرلکم ) میں ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، اس سے مراد بھی سحری کا وقت ہے، اپنی اولاد سے فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت میں تمہارے لئے استغفار کروں گا
بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں جو بہت سے صحابیوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی ہر رات آخری تہائی باقی رہتے ہوئے آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کوئی سائل ہے؟ جسے میں دوں، کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخشوں۔
بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات
درمیانی اور آخری رات میں وتر پڑھے ہیں، سب سے آخری وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کا سحری تک تھا
حضرت عبداللہ بن عمر رات کو تہجذ پڑھتے رہتے اور اپنے غلام حضرت نافع سے پوچھتے کیا سحر ہو گئی، جب وہ کہتے ہاں تو آپ صبح صادق کے نکلنے کی دعا استغفار میں مشغول رہتے، حضرت حاطب فرماتے ہیں سحری کے وقت میں نے سنا کہ کوئی شخص مسجد کے کسی گوشہ میں کہہ رہا ہے اے اللہ تو نے مجھے حکم کیا میں بجا لایا، یہ سحر کا وقت ہے مجھے بخش دے، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود تھے۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ہمیں حکم کیا جاتا تھا کہ ہم جب تہجد کی نماز پڑھیں تو سحری کے آخری وقت ستر مرتبہ استغفار کریں اللہ سے بخشش کی دعا کریں۔
دنیوی پریشانیوں کا حل
کثرتِ استغفار سے جہاں گناہوں کی معافی ہوتی ہے، وہاں دنیا کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص استغفار میں لگا رہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنادیں گے اور ہر فکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیں گے، جہاں سے اس کو دھیان بھی نہ ہوگا۔ ابوداؤد
لوگ دشواریوں کو ختم کرنے اور تکفرات سے نجات پانے اور رزق حاصل کرنے کے لئے کیا
کیا جتن کرتے ہیں، لیکن استغفار میں نہیں لگتے جوکہ بہت آسان نسخہ ہے، جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ استغفار میں لگنے والا بندہ مذکورہ فوائد حاصل کرے گا۔ استغفارکرنے پر جن انعامات کا ذکر ہوا، وہی انعامات متقین کے لئے بھی وارد ہوئے ہیں، رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان جایئے کہ آپ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میری امت کے خطا کار بندے محروم رہ جائیں، پس مستغفرین و تائبین (توبہ و استغفار کرنے والوں) کے لئے بھی ان ہی انعامات کا وعدہ فرمایا جو متقین کو عطا ہوں گے -
فضائل توبہ و استغفار، ص:۲۶
لہٰذا ہمیں گناہوں پر سچے دل سے استغفار کرنا چاہئے، تاکہ ہم بھی مذکورہ انعامات کے مستحق ہوسکیں۔
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی ، یعنی بارش نہ ہونے کی، تو انہوں نے فرمایا: استغفار کرو، دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ : استغفار کرو، تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوار زمین میں کمی ہے،تو ان کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، پس کہا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج تجویز فرمایا ؟تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی
استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔ نوح:۱۰
ترجمہ:۔ گناہ بخشواؤ اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش
بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادے گا۔
استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ؍مانگتی ہوں جومیرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا؍کرتی ہوں

Last edited: