مائی باپ! آپ کے بوٹ کے نیچے میرا ووٹ پڑا ہے
نورالہدیٰ شاہ
عالی جناب مائی باپ!
سات سلام قبول ہوں۔
آپ کا اقبال بلند رہے۔
گزارش ہے کہ میں آپ کی عالیشان ریاست کا اک بندہ گندہ ہوں۔
آدھا ننگا، آدھا ڈھکا ہوا۔ آدھا خالی، آدھا بھرا ہوا۔
آپ تو مجھے نہیں جانتے ہوں گے مگر اس بندہِ خاکی کا نام عوام ہے مائی باپ!
اکیلا ہوں تو بھی عوام ہوں۔ لاکھوں کروڑوں میں ڈھل جاؤں، تو بھی عوام ہوں۔
مائی باپ!
مزید گزارش ہے کہ چند سال پہلے اس ناچیز نے ایک عدد ووٹ ڈالا تھا۔ میں ننگے پاؤں، بھری دوپہر کی تپتی زمین پر چھ میل پیدل چلتا ہوا ووٹوں والے ڈبے تک گیا تھا۔
بھوکا بھی تھا اس وقت اور کپڑے بھی پھٹے اور میلے تھے میرے۔ بندے کے پاس ایک ہی جوڑا ہو تو کیا کرے!
دھوئے یا اوڑھے؟
پر ووٹوں والے ڈبے تک مجھے جانا ہی تھا مائی باپ!
اس لیے کہ مجھ جیسا بدبودار آپ صاحب لوگ کے دربار تک پہنچ نہیں سکتا۔ پہنچ جائے تو اندر جا نہیں سکتا۔ جائے بھی کیسے! بندہ انسانوں جیسا ہو تو آپ کے روبرو کھڑا بھی ہو! اب اگر ٹانگیں ہو چکی ہوں بوجھ ڈھوتے گدھے کی ٹانگوں جیسی اور پیر ہل کھینچتے بیل جیسے۔ منہ پر غربت کی نحوست برستی ہو اور کپڑوں سے پسینے کے بھبوکے اٹھتے ہوں۔ اوپر سے بندے کو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہ آئے، سوائے سلام صاحب کہنے کے!
بس اسی لیے ووٹوں والے ڈبے تک خود کو گھسیٹتا ہوا لے گیا تھا کہ سنا ہے اس ڈبے میں پڑا میرا ووٹ اس ملکِ عالیشان کی حکومت منتخب کرتا ہے۔
مطبل یہ کہ میں حکومت کے محل خانوں میں پہنچوں یا نہ پہنچوں پر جو بندہ اس کے اندر بیٹھا ہے، اسے میں نے بٹھایا ہے!
میں نے مائی باپ!
میں نے۔
اس بندے گندے نے!
میں سب کو چھاتی ٹھوک کے بتاتا ہوں کہ اسے میں نے بٹھایا ہے۔
مجھے پتہ تھا کہ وہ اُلّو کا پٹھا مجھے اور میرے بچوں کے لیے ہسپتال اور اسکول بنوا کر نہیں دے گا۔ نہ میرے گاؤں تک پکی سڑک بنوائے گا اور نہ ہی بجلی دے گا۔
مجھے پتہ تھا مائی باپ کہ وہ جھوٹا ہے ایک نمبر کا۔ میرے حصے کے پیسے بھی کھا جائے گا وہ۔ مجھے سب پتہ تھا۔ پر یہ بھی تو پتہ تھا نا مائی باپ کہ میری مرضی میں اسے کرسی پر بٹھاؤں۔ میری مرضی میں اسے اتار دوں۔ اختیار تو میرے پاس ہے نا۔ پانچ سال کے بعد حرامزادہ لوٹ کے تو میرے پاس آئے گا نا! گڑگڑائے گا۔ بھیک مانگے گا مجھ سے۔
جی مائی باپ! مجھ سے بھیک مانگے گا۔ مجھ سے۔ مجھ بھوکے ننگے سے۔ پھر اس وقت میری مرضی، میں اسے گریبان سے پکڑوں یا چھوڑ دوں۔ اسے کرسی سے اتار کر کسی اور کو بٹھاؤں یا اسے لنگڑا لولا کر دوں!
پر مرضی میری ہوگی نا مائی باپ!
میں اک بندہ گندہ، خاکی، ننگا اور بھوکا۔
کب تک بچے گا وہ! مجھ سے بچ جائے گا تو میرے بچوں کے ہاتھوں پکڑا جائے گا۔ نہیں تو اُن کے بچوں کے ہاتھوں۔ پر ایک دن اس کھوتے کے پتر کو حساب برابر کرنا ہی پڑ جائے گا۔ ہسپتال اور اسکول بنانا پڑ جائے گا۔
گزارش یہ ہے مائی باپ! کہ میں نے وہ ووٹ اسی طرح چھاتی ٹھوک کے ڈالا تھا۔
اب سنا ہے کہ میرا وہ ووٹ آپ کے بوٹ کے نیچے آ گیا ہے۔
عرض یہ ہے مائی باپ کہ بس ذرا سا بوٹ اوپر اٹھائیے، میں اپنا ووٹ کھینچ لوں۔
یہ ووٹ میری شناخت ہے مائی باپ۔
یہ ووٹ دینے کے لیے میں نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا تھا۔ اس کارڈ پر میرا نام لکھا ہے۔ میرے باپ کا نام۔ میرے گھر اور گاؤں کا پتہ۔
میری یہ شناخت ووٹروں والی لسٹ میں لکھی ہے مائی باپ۔ آدم شماری میں میرا شمار ہوتا ہے اس شناخت کے ساتھ۔
اسی وجہ سے مجھے پتہ ہے کہ پاکستان جس زمین پر کھڑا ہے، وہ میری زمین ہے۔ میرے کچے اور پھٹی چھت والے گھر کی زمین پر کھڑا ہے پاکستان۔ یہ زمین پاکستان سے بھی پہلے میرے باپ دادا کے پاس تھی مائی باپ! پاکستان بعد میں بنا ہے۔ پاکستان ایک ملک ہے مائی باپ۔ پر زمین میری ذاتی ہے۔ اس لیے یہ ملک بھی میرا ذاتی ہوا۔ اس لیے اس کا فیصلہ بھی میں کروں گا۔
میں مائی باپ!
میں جب ووٹ دینے جاتا ہوں تو ووٹ پاس کرنے والے میری یہ شناخت دیکھ کر مجھے ووٹ کی پرچی دیتے ہیں، جس پر میں مہر لگاتا ہوں اپنی مرضی کے نشان پر۔
جی مائی باپ!
اپنی مرضی کے نشان پر۔
میری عاجزی والی بس اتنی سی گزارش ہے مائی باپ کہ بس ذرا سا بوٹ اوپر اٹھائیے۔ میری ذاتی شناخت آپ کے بوٹ کے نیچے آ گئی ہے۔
الیکشن بہت قریب ہے مائی باپ۔ یہ ووٹ اپنی شناخت کے ساتھ مجھے پھر ووٹوں والے ڈبے میں ڈالنا ہے۔ مجھے اپنی مرضی کا بندہ منتخب کرنا ہے۔ مجھے پچھلے بندے سے اپنا حساب کتاب خود کرنا ہے۔ مجھے خود اپنے ہاتھوں سے اس کا گریبان پکڑنا ہے۔ مجھے اپنا حق خود مانگنا ہے۔ مجھے اس پر ثابت کرنا ہے کہ دیکھ اصل طاقت میں ہوں۔
میں۔
پاکستان کی زمین میری ہے۔
اس لیے پاکستان میرے لیے ہے۔
اس لیے فیصلہ بھی میرا ہے۔
بس مائی باپ! تھوڑا سا بوٹ اوپر کیجیے تاکہ میں اپنا ووٹ اٹھا لوں۔
میرا ووٹ مسل گیا تو میری شناخت مر جائے گی مائی باپ۔
مری ہوئی شناخت کے ساتھ بندہ اپنے باپ کا ہی نہیں رہتا، ملک کا کیا رہے گا۔
فقط
اک بندہ گندہ آپ کا تابع دار
عوام
source