یا الہی یہ ماجرا کیا ہے- کیا ہمارے پرائم منسٹر جناب نواز شریف صاحب ہی ہیں؟
دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں پر یہ کیا بیت گئی- یہ فسوں طرازی کس کی ہے
کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف صاحب اس سطح کی سر مستی دکھائیں گے
اور اس طرح جرات رندانہ کا نذرانہ قوم کو پیش کریں گے- ١٩٩٩ میں' میں سکول جایا کرتا تھا
نواز شریف صاحب میری فیملی کے پسندیدہ "لیڈر" تھے- مشرف نے ملک پہ قبضہ جما لیا- یہ سب
کچھ میرے لئے نیا تھا- مشرف آئے تو میں نے میٹرک پاس کیا- روز صبح اخبار کھنگالنا عادت
بن گئی- سیاست نے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا- نواز شریف صاحب کا پچھلا ریکارڈ پڑھا- انہ
نے کیسے پیسے کو سیاست سے ملزوم کر دیا- بندے خریدنا بندے بیچنا- خاندانی سیاست کو فروغ
دینا- اقربا پروری میں سب کو پیچھے چھوڑ دینا- ترجیحات اور تقدیم سے مکمل طور پر نابلد- ہر
قسم کی اخلاقی آلائش اور مالی کرپشن میں ملوث نواز شریف جلد ہی میرے نا پسندیدہ سیاستدانوں
میں شامل ہو گئے- پڑھنے کے لئے باہر آئے- دنیا دیکھی- ناروے' جرمنی' انگلینڈ کی یونیورسٹیز
میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کا مشاہدہ کیا تو یہ نا پسندیدگی فزوں تر ہوتی چلی گئی-
روز و شب اپنی رفتار سے بیتتے جا رہے تھے- اندھیرے اور اجالے کی کشمکش جاری تھی
چاند اور سورج اپنے اپنے محور میں سرگرداں ایک دوسرے کو پکڑنے کی فکر میں کبھی دن
اور کبھی رات کا باعث بن رہے تھے کہ اچانک ایک عجیب کایا پلٹ ہوئی- چھوٹے میاں صاحب
نے جو ہمیں بچپن سے ہی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ایک ایسا قانون پیش کر دیا جو پاکستان جیسے
شدید انتہا پسندی کا شکار ملک کے لئے ایک افسانے ایک خواب سے کم نہیں تھا-پاکستان کی خواتین
کی انتہائی کسمپرسی اور بیچارگی کا احساس کسی صاحب دل کو کسی بااحساس کو تو ہو سکتا تھا
پر شہباز شریف صاحب کو نہیں- گردش دوراں نے وہ انقلاب دکھایا کہ تادیر ہمیں یقین نہیں آ سکا-
شہباز شریف نے خواتین کی حالت بہتر بنانے اور انکے سماجی مقام میں اضافہ کرنے کے لئے ایک
ایسا قانون پاس کر دیا جو بہت متوازن اور کسی بھی قسم کی سیاسی آلودگی سے پاک تھا-
شہباز صاحب کے لئے وہی جذبات نکلے جو اس شخص کے لئے نکلتے ہیں جو آپکا شدید دشمن ہو
مگر پیاسا دیکھ کر پانی کا کٹورا آپ کی طرف بڑھا دے
ابھی اس حیرت کو ہم پوری طرح جذب نہیں کر پائے تھے کہ پتا چلا کہ نواز شریف نے تمام تر
مذہبی گروپوں کے پریشر کو مسترد کرتے ہوئے ممتاز قادری کی اپیل مسترد کر کے انہیں سفر آخرت
پر روانہ کر دیا ہے- کچھ لمحے تو گم سم گزر گئے- جب خبر کی ساکھ پہ یقین آیا تو دل کی عجیب حالت
ہوئی- ہم تو جان بیٹھے تھے کہ ممتاز قادری کی اپیل صدر صاحب دبا کے رکھیں گے تا وقت کہ ان
کی حکومت کی مدت پوری ہو جائے اور وہ مذہبی جماعتوں کی نظر میں سرخ رو ہو کر دائیں بازو
کے ووٹ اپنے نام کر سکیں- اس بات کا ہمیں یقین کی حد تک گمان تھا کہ نواز شریف جیسے
مصلحت کوش اور اقتدار پسند آدمی کبھی ایسا رسک نہیں لیں گے جس سے انکی کمزور حکومت کو کچھ
اور جھٹکے سہنے پڑیں- مگر بہادری اور لیڈری میں بڑے میاں نے چھوٹے میاں کو بھی مات دے دی
دل کی عجیب کیفیت ہو گئی
ایک قاتل کو کسی مصلحت کے بغیر سزا یافت کرنا دل کو امید سے معمور کر گیا- ساتھ ہی ساتھ
ایک انسان کے جان چلے جانے پر گرانی بھی ہوئی- موت کی سزا کی اصولی مخالفت کرنے
والے کسی بھی شخص کے لئے ممتاز قادری کی سزا خوشی کا موجب نہیں تھی- کاش کہ قادری کو
عمر قید ہی ہوتی-
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملا ل بھی
خیر انصاف مل چکا ہے اور حقوق نسواں کا قانون پاس ہو چکا ہے- اور رہ رہ کے میرے ذہن میں
یہ سوال اٹھتا ہے کہ شریف برادرز کی ماہیت قلب کے پیچھے کون ہے؟ کیا دونو ں بھائیوں کو انسان
اور انسانیت سے پیار ہو گیا ہے ؟ بنیادی انسانی حقوق اور اعلی اقدار پہ ایمان لا چکے؟ ذہن و قلب
کسی ایسی مثبت تبدیلی سے گزرا کہ اقتدار کی مصلحت پر قانون اور انصاف کے تقاضے غالب آ گئے؟
کیا یہ سب کچھ نگاہوں کا دھوکا ہے؟ پس پردہ کوئی اور ہے؟ امریکا یا آرمی؟
سب سے اہم سوال یہ بنا کہ کیا بائیں بازو کی جماعتوں پیپلز پارٹی کی گمراہی اور پی ٹی آئی کی بے عملی
کو بھانپتے ہوئے نوں لیگ خود کو سیاسی سپیکٹرم کے بائیں جانب شفٹ کر رہی ہے؟ کیا ان دو بڑے
واقعات کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوں لیگ اب سنٹر لیفٹ کی جماعت بن گئی ہے؟ یہ خواب ہے یہ حیقت؟
لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا' ساقیا' سمبھال ہمیں
دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں پر یہ کیا بیت گئی- یہ فسوں طرازی کس کی ہے
کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف صاحب اس سطح کی سر مستی دکھائیں گے
اور اس طرح جرات رندانہ کا نذرانہ قوم کو پیش کریں گے- ١٩٩٩ میں' میں سکول جایا کرتا تھا
نواز شریف صاحب میری فیملی کے پسندیدہ "لیڈر" تھے- مشرف نے ملک پہ قبضہ جما لیا- یہ سب
کچھ میرے لئے نیا تھا- مشرف آئے تو میں نے میٹرک پاس کیا- روز صبح اخبار کھنگالنا عادت
بن گئی- سیاست نے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا- نواز شریف صاحب کا پچھلا ریکارڈ پڑھا- انہ
نے کیسے پیسے کو سیاست سے ملزوم کر دیا- بندے خریدنا بندے بیچنا- خاندانی سیاست کو فروغ
دینا- اقربا پروری میں سب کو پیچھے چھوڑ دینا- ترجیحات اور تقدیم سے مکمل طور پر نابلد- ہر
قسم کی اخلاقی آلائش اور مالی کرپشن میں ملوث نواز شریف جلد ہی میرے نا پسندیدہ سیاستدانوں
میں شامل ہو گئے- پڑھنے کے لئے باہر آئے- دنیا دیکھی- ناروے' جرمنی' انگلینڈ کی یونیورسٹیز
میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کا مشاہدہ کیا تو یہ نا پسندیدگی فزوں تر ہوتی چلی گئی-
روز و شب اپنی رفتار سے بیتتے جا رہے تھے- اندھیرے اور اجالے کی کشمکش جاری تھی
چاند اور سورج اپنے اپنے محور میں سرگرداں ایک دوسرے کو پکڑنے کی فکر میں کبھی دن
اور کبھی رات کا باعث بن رہے تھے کہ اچانک ایک عجیب کایا پلٹ ہوئی- چھوٹے میاں صاحب
نے جو ہمیں بچپن سے ہی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے ایک ایسا قانون پیش کر دیا جو پاکستان جیسے
شدید انتہا پسندی کا شکار ملک کے لئے ایک افسانے ایک خواب سے کم نہیں تھا-پاکستان کی خواتین
کی انتہائی کسمپرسی اور بیچارگی کا احساس کسی صاحب دل کو کسی بااحساس کو تو ہو سکتا تھا
پر شہباز شریف صاحب کو نہیں- گردش دوراں نے وہ انقلاب دکھایا کہ تادیر ہمیں یقین نہیں آ سکا-
شہباز شریف نے خواتین کی حالت بہتر بنانے اور انکے سماجی مقام میں اضافہ کرنے کے لئے ایک
ایسا قانون پاس کر دیا جو بہت متوازن اور کسی بھی قسم کی سیاسی آلودگی سے پاک تھا-
شہباز صاحب کے لئے وہی جذبات نکلے جو اس شخص کے لئے نکلتے ہیں جو آپکا شدید دشمن ہو
مگر پیاسا دیکھ کر پانی کا کٹورا آپ کی طرف بڑھا دے
ابھی اس حیرت کو ہم پوری طرح جذب نہیں کر پائے تھے کہ پتا چلا کہ نواز شریف نے تمام تر
مذہبی گروپوں کے پریشر کو مسترد کرتے ہوئے ممتاز قادری کی اپیل مسترد کر کے انہیں سفر آخرت
پر روانہ کر دیا ہے- کچھ لمحے تو گم سم گزر گئے- جب خبر کی ساکھ پہ یقین آیا تو دل کی عجیب حالت
ہوئی- ہم تو جان بیٹھے تھے کہ ممتاز قادری کی اپیل صدر صاحب دبا کے رکھیں گے تا وقت کہ ان
کی حکومت کی مدت پوری ہو جائے اور وہ مذہبی جماعتوں کی نظر میں سرخ رو ہو کر دائیں بازو
کے ووٹ اپنے نام کر سکیں- اس بات کا ہمیں یقین کی حد تک گمان تھا کہ نواز شریف جیسے
مصلحت کوش اور اقتدار پسند آدمی کبھی ایسا رسک نہیں لیں گے جس سے انکی کمزور حکومت کو کچھ
اور جھٹکے سہنے پڑیں- مگر بہادری اور لیڈری میں بڑے میاں نے چھوٹے میاں کو بھی مات دے دی
دل کی عجیب کیفیت ہو گئی
ایک قاتل کو کسی مصلحت کے بغیر سزا یافت کرنا دل کو امید سے معمور کر گیا- ساتھ ہی ساتھ
ایک انسان کے جان چلے جانے پر گرانی بھی ہوئی- موت کی سزا کی اصولی مخالفت کرنے
والے کسی بھی شخص کے لئے ممتاز قادری کی سزا خوشی کا موجب نہیں تھی- کاش کہ قادری کو
عمر قید ہی ہوتی-
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملا ل بھی
خیر انصاف مل چکا ہے اور حقوق نسواں کا قانون پاس ہو چکا ہے- اور رہ رہ کے میرے ذہن میں
یہ سوال اٹھتا ہے کہ شریف برادرز کی ماہیت قلب کے پیچھے کون ہے؟ کیا دونو ں بھائیوں کو انسان
اور انسانیت سے پیار ہو گیا ہے ؟ بنیادی انسانی حقوق اور اعلی اقدار پہ ایمان لا چکے؟ ذہن و قلب
کسی ایسی مثبت تبدیلی سے گزرا کہ اقتدار کی مصلحت پر قانون اور انصاف کے تقاضے غالب آ گئے؟
کیا یہ سب کچھ نگاہوں کا دھوکا ہے؟ پس پردہ کوئی اور ہے؟ امریکا یا آرمی؟
سب سے اہم سوال یہ بنا کہ کیا بائیں بازو کی جماعتوں پیپلز پارٹی کی گمراہی اور پی ٹی آئی کی بے عملی
کو بھانپتے ہوئے نوں لیگ خود کو سیاسی سپیکٹرم کے بائیں جانب شفٹ کر رہی ہے؟ کیا ان دو بڑے
واقعات کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوں لیگ اب سنٹر لیفٹ کی جماعت بن گئی ہے؟ یہ خواب ہے یہ حیقت؟
لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا' ساقیا' سمبھال ہمیں
Last edited by a moderator: