سیاست بھی عجیب چیز ہے، اور پاکستانی سیاست تو اس اعتبار سے عجائبات میں سے ہے۔
میڈیا، جہاں یہ بتا رہا ہے کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کرنے سے یہاں کے ملازمین شدّتِ غم کی وجہ سےجاں بحق ہورہے ہیں، وہاں اس بات پر کوئی روشنی کی ایک کرن بھی ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا کہ انھی مزدوروں کی کسی کام کے بغیر جو تنخواہیں حکومت دیتی رہی ہے، اس سے نہ جانے پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں ہونے والی کتنی اموات ہونے سے بچ سکتی تھیں؟ کتنے لوگوں کی بھوک اور افلاس کو مٹایا جا سکتا تھا؟ بینظیر انکم سپورٹ اور احساس جیسے پروگراموں کے کتنے مستحقین کو یہ پیسے منتقل ہو سکتے تھے؟
خیر جہاں پر یہ دل ان دو ملازمین کے جاں بحق ہونے پر غمیدہ ہے، وہیں پر ہمارے سیاستدانوں کی ان لاشوں پر کی جانے والی سیاست پر رنجیدہ بھی ہے۔ کل کے اس واقعے کی ایک ویڈیو انھی لیبر یونین والوں کے اپنے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی، جس میں واضع طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مریض کے لیئے انتظامیہ نے تو بروقت ایمبولینس بھیج دی، لیکن اس مریض کو فوراً ہسپتال منتقل کرنے کی بجائے یہ لیبر یونین کے لوگ اپنی تقریر کو زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔
ملاحظہ کریں کہ مریض کو ہسپتال لے جانے کی بجائے یہ لیبر یونین کے لیڈر کیا کر رہے ہیں؟ کیا اگر اس کی جگہہ انکا اپنا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز دل کے دورے کا شکار ہوتا تو کیا یہ تب بھی انکا یہ رویہّ ممکن تھا؟
ہر ذی شعور اس بات سے متفق ہوگا کہ ایسے موقع پر ایسی تقاریر، لعن طعن، الزام تراشی کسی کی جان سے زیادہ اہم نہیں۔ ویسے تو ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے، لیکن کیا اس واقع میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شائد یہ چند لمحے اگر بچا لیئے جاتے تو ۔۔۔۔
غور ذرا رویّے پر کریں اور پھر میڈیا میں اس بات کو لے کر کیسے اچھالا جا رہا ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:
دیگر یہ کہ جنگ گروپ اپنی روائتی سیاسی رقابت اور تعصب میں کیسے دو کی چار لگا رہا ہے؟
انکو صرف اطلاع ہے کہ چار لوگوں کو دل کے دورے پڑے ہیں۔ اسی اطلاع پر انھوں نے یہ خبر بنا تصدیق کے چھاپ دی ہے۔
لیکن میرا یقین ہے کہ انھیں بھی پتہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ان دس ہزار مزدوروں کی نوکریاں بچانے کے لیئے نہ صرف حکومت پاکستان کو ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے قرضے ادا کرنے پڑیں گے، بلکہ مزید پتہ نہیں کتنے سینکڑوں ارب روپے سے یہ کارخانہ دوبارہ چلانے کے قابل بنایا جائے گا۔
مگر دوسری طرف اسی پیسے سے کتنے لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر اثر پڑے گا۔
ابھی تو حکومت پاکستان ان ملازمین کو انکے واجبات ادا کرنے کے بعد فارغ کر رہی ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کے بعد یہاں روزگار کے مواقع دوبارہ میّسر ہونگے۔ ہاں، نہیں ہوگا تو صرف عوام کے ٹیکس کے پیسے سے مفت تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ نہیں ہوگا تو یہاں ان سیاسی بھرتیوں کا مستقبل نہیں ہوگا جنکو میرٹ کا گلا کاٹ کر یہاں زبردستی ملازم رکھوایا گیا۔ محنت کش اور ہنر مند کے لیئے تو اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ تب ہی اوپر پوسٹ کی ہوئی ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان ساڑھے نو ہزار میں سے کتنے ملازمین یہاں احتجاج کے لیئے اکٹھے ہوئے ہیں؟ یہ بھی ایک علیٰحدہ سوال ہے کہ کیا یہ تمام لوگ اسٹیل ملز کے ہی ملازم ہیں یا کچھ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھیجے ہوئے لوگ بھی ان میں شامل ہیں؟
بہرحال، اپنیے قارئین سے گزارش یہی ہے کہ متوّفیان کے ایثال ثواب اور بخشش کے لیئے دعا کیجیئے ۔ اللہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور پاکستان کے لیئے اللہ جو بہتر فیصلہ ہو، اس کے اوپر ہمیں بہ حیثیت قوم ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا کرے (آمین)۔۔
میڈیا، جہاں یہ بتا رہا ہے کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کرنے سے یہاں کے ملازمین شدّتِ غم کی وجہ سےجاں بحق ہورہے ہیں، وہاں اس بات پر کوئی روشنی کی ایک کرن بھی ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا کہ انھی مزدوروں کی کسی کام کے بغیر جو تنخواہیں حکومت دیتی رہی ہے، اس سے نہ جانے پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں ہونے والی کتنی اموات ہونے سے بچ سکتی تھیں؟ کتنے لوگوں کی بھوک اور افلاس کو مٹایا جا سکتا تھا؟ بینظیر انکم سپورٹ اور احساس جیسے پروگراموں کے کتنے مستحقین کو یہ پیسے منتقل ہو سکتے تھے؟
خیر جہاں پر یہ دل ان دو ملازمین کے جاں بحق ہونے پر غمیدہ ہے، وہیں پر ہمارے سیاستدانوں کی ان لاشوں پر کی جانے والی سیاست پر رنجیدہ بھی ہے۔ کل کے اس واقعے کی ایک ویڈیو انھی لیبر یونین والوں کے اپنے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی، جس میں واضع طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ مریض کے لیئے انتظامیہ نے تو بروقت ایمبولینس بھیج دی، لیکن اس مریض کو فوراً ہسپتال منتقل کرنے کی بجائے یہ لیبر یونین کے لوگ اپنی تقریر کو زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔
ملاحظہ کریں کہ مریض کو ہسپتال لے جانے کی بجائے یہ لیبر یونین کے لیڈر کیا کر رہے ہیں؟ کیا اگر اس کی جگہہ انکا اپنا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز دل کے دورے کا شکار ہوتا تو کیا یہ تب بھی انکا یہ رویہّ ممکن تھا؟
ہر ذی شعور اس بات سے متفق ہوگا کہ ایسے موقع پر ایسی تقاریر، لعن طعن، الزام تراشی کسی کی جان سے زیادہ اہم نہیں۔ ویسے تو ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے، لیکن کیا اس واقع میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شائد یہ چند لمحے اگر بچا لیئے جاتے تو ۔۔۔۔
غور ذرا رویّے پر کریں اور پھر میڈیا میں اس بات کو لے کر کیسے اچھالا جا رہا ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:

دیگر یہ کہ جنگ گروپ اپنی روائتی سیاسی رقابت اور تعصب میں کیسے دو کی چار لگا رہا ہے؟

انکو صرف اطلاع ہے کہ چار لوگوں کو دل کے دورے پڑے ہیں۔ اسی اطلاع پر انھوں نے یہ خبر بنا تصدیق کے چھاپ دی ہے۔
لیکن میرا یقین ہے کہ انھیں بھی پتہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ان دس ہزار مزدوروں کی نوکریاں بچانے کے لیئے نہ صرف حکومت پاکستان کو ساڑھے پانچ سو ارب روپے کے قرضے ادا کرنے پڑیں گے، بلکہ مزید پتہ نہیں کتنے سینکڑوں ارب روپے سے یہ کارخانہ دوبارہ چلانے کے قابل بنایا جائے گا۔
مگر دوسری طرف اسی پیسے سے کتنے لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر اثر پڑے گا۔
ابھی تو حکومت پاکستان ان ملازمین کو انکے واجبات ادا کرنے کے بعد فارغ کر رہی ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کے بعد یہاں روزگار کے مواقع دوبارہ میّسر ہونگے۔ ہاں، نہیں ہوگا تو صرف عوام کے ٹیکس کے پیسے سے مفت تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ نہیں ہوگا تو یہاں ان سیاسی بھرتیوں کا مستقبل نہیں ہوگا جنکو میرٹ کا گلا کاٹ کر یہاں زبردستی ملازم رکھوایا گیا۔ محنت کش اور ہنر مند کے لیئے تو اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ تب ہی اوپر پوسٹ کی ہوئی ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان ساڑھے نو ہزار میں سے کتنے ملازمین یہاں احتجاج کے لیئے اکٹھے ہوئے ہیں؟ یہ بھی ایک علیٰحدہ سوال ہے کہ کیا یہ تمام لوگ اسٹیل ملز کے ہی ملازم ہیں یا کچھ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھیجے ہوئے لوگ بھی ان میں شامل ہیں؟
بہرحال، اپنیے قارئین سے گزارش یہی ہے کہ متوّفیان کے ایثال ثواب اور بخشش کے لیئے دعا کیجیئے ۔ اللہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور پاکستان کے لیئے اللہ جو بہتر فیصلہ ہو، اس کے اوپر ہمیں بہ حیثیت قوم ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا کرے (آمین)۔۔

- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/6c36Hhv.jpg
Last edited: