Goldfinger
MPA (400+ posts)

’طالبان ہم پر بالکل رحم نہیں کریں گے، اور حکومت بمباری روکے گی نہیں!‘
یہ الفاظ جنوبی افغانستان میں لشکر گاہ کے ایک رہائشی کے ہیں جہاں سے ہزاروں عام شہری نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس مضمون میں سیکیورٹی خدشات کی بنا پر بی بی سی کچھ انٹرویو دینے والے افراد کے نام ظاہر نہیں کر رہی۔
اس رہائشی کا کہنا ہے کہ ’سڑکوں پر لاشیں پڑی ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہ عام شہری ہیں یا طالبان۔ درجنوں فیملیاں بھاگ چکی ہیں اور ہلمند دریا کے قریب پہنچ چکی ہیں۔‘
ان کے علاوہ دیگر متعدد شہریوں نے بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ لشکر گاہ میں گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں۔
لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے جس کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد شاید یہ شہر طالبان کے قبضے میں آنے والا پہلا صوبائی دارالحکومت ہو سکتا ہے۔
لشکر گاہ پر قبضہ کرنا طالبان کے لیے ایک بہت بڑی علامتی کامیابی ہوگی۔ جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان ایئرفورس کے طالبان کے خلاف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان عسکریت پسند فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ سنہ 2016 کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا صوبائی دارالخلافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوب میں صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ کچھ جگہوں پر قبضے کے بعد کل سے طالبان جنگجوؤں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری امریکی جنگ کے بعد جیسے جیسے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخلا کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے تو ایسے میں طالبان تیزی سے سینکڑوں اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن اُن کے مطابق گذشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی ہے اور اُن کی شہر میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے
ہرات شہر میں حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان کے تمام حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
حکام نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ شہر کے بعض شمالی علاقوں اور ضلع انجیل میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
دوسری جانب طالبان ترجمان کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جنگجو آج بھی ہرات شہر میں موجود ہیں اور اُن کے صرف پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔
طالبان کی جانب سے ہرات اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔
اُدھر صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ سے بھی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں آ رہی ہیں اور اس شہر کے اکثر باسی اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
لشکرگاہ کے ایک شہری نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔‘
اطلاعات ہیں کہ طالبان نے ایک ٹی وی سٹیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے اور دیہی علاقوں سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں نے شہر کی عمارتوں میں پناہ لے لی ہے۔

ایک ڈاکٹر نے ہسپتال سے بتایا کہ ’ہر طرف لڑائی جاری ہے۔‘
ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عطااللہ افغان کا کہنا ہے کہ سپیشل فورسز لشکرگاہ پہنچ چکی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید فورسز شہر کی دفاع کے لیے پہنچ جائیں گی۔
ہلمند امریکی اور برطانوی فوجی کارروائیوں کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل تھا اور اگر طالبان اس پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ افغان حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔
سورس
ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عطااللہ افغان کا کہنا ہے کہ سپیشل فورسز لشکرگاہ پہنچ چکی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید فورسز شہر کی دفاع کے لیے پہنچ جائیں گی۔
ہلمند امریکی اور برطانوی فوجی کارروائیوں کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل تھا اور اگر طالبان اس پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ افغان حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہو گا۔
سورس