'لاپتہ صحافی کیس : 'دہشت گرد کو بھی بغیر عدالتی کارروائی کے مار نہیں سکتے

mudasir-naro-ihc.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی وبلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت کو بتایا گیا کہ متاثرہ خاندان کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی ہے۔ وزیراعظم نے ملاقات میں اظہار شرمندگی کیا اور کہا کہ ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں کوئی احتساب نہیں، ایک کمیشن بنا ہے فیملیز جاتی ہیں وہ تاریخ دے دیتے ہیں، یہاں ہزاروں لاپتہ افراد کی فیملیز ہیں ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں، یہاں ریاست کے اندر ریاست نہیں یہاں ایک آئین ہے قانون ہے ، یہاں آج تک اس قسم کے کیسز میں کوئی تحقیقات نہیں ہو سکیں، ریاست اس کی ذمہ دار ہے اب یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے۔


چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ دہشت گرد بھی ہو تو اس کو آپ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے مار تو نہیں سکتے، کون طے کرے گا کہ یہ دہشت گرد ہے یا نہیں؟ کل کو ایس ایچ او کہے گا کہ دوسرا میرے خلاف بات کر رہا ہے اس کو اٹھا لو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی کو بھی مدنظر رکھنا ہے، آرٹیکل چھ کے تحت جن کو سزا ہو چکی ہم تو اس پر بھی عمل نہیں کرا سکے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم اس پر پھر فیصلہ کر دیتے ہیں کہ جتنے چیف ایگزیکٹو گزرے یا یہ ہیں ان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ پھر صرف چیف ایگزیکٹو ہی کیوں سب کو ذمہ دار ہونا چاہیے، کچھ بیماریوں کا علاج صرف عدالتی فیصلوں سے نہیں ہوتا۔ علاج عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئیں، 1970 سے یہاں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے، جب تاثر یہ ہو کہ ریاست ان کرائمز میں شامل ہے تو اس سے سیریس کوئی چیز نہیں ہو سکتی، جنہوں نے مانا ہے ان کے خلاف کارروائی کرکے تو یہ کام شروع کر سکتے ہیں۔

عدالت نے کہا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جو یہ کر رہے ہیں ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے، اگر یہ جاری رہتا ہے تو پھر عدالت آرٹیکل چھ میں چیف ایگزیکٹوز کو رکھے گی، یہ تاثر ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے، عدالت اس کو نہیں مانتی کہ ریاست کے اندر ریاست ہے۔

عدالت نے مزید کہا ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں، یا تو چیف ایگزیکٹوز ذمہ داری لیں، یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔
 
Last edited: