
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں ملٹری انٹیلیجنس اور خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس(آئی ایس آئی) کی طرف سے دو گمشدہ افراد کے معاملے میں ملوث ہونے کے انکار کے بعد ان افراد کی بازیابی کے لیے قائم مشترکہ انویسٹیگشن ٹیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے جسٹس اعجاز چوہدری اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل عدالت کے دو رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کی۔
خانیوال ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد ایاز سلیم کی دو لاپتہ افراد سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے علاوہ مشترکہ انویسٹیگیشن ٹیم کے تمام اراکین کی رائے میں ان افراد کو ایجنسیوں نے اغوا کیا، جن میں کراچی کے عبدالرحمان اور کبیروالہ کے غلام ساجد احمد شامل ہیں۔
لیکن سماعت میں موجود آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں نے مشترکہ ٹیم کے اراکین کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس کیس میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے خیال کو رد کردیا۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ایک جیسے اختلافی نوٹس میں کہا گیا کہ گراؤنڈ چیک، گواہوں اور ان کے جوابات اور درخواست گزاروں کی جانب سے تفصیلات سامنے آنے کے بعد آئی ایس آئی کا خیال ہے کہ ان افراد کے اغوا میں ایجنسیاں ملوث نہیں ہیں۔
مشترکہ انویسٹیگیشن کمیٹی کے دیگر اراکین جن میں مقامی پولیس اور انٹیلیجنس بیورو کے حکام بھی شامل ہیں، نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے بحث کی کہ اس کیس میں ایجنسیاں ہی ملوث ہیں۔
مشترکہ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق غلام ساجد احمد خانیوال سے 2011ء میں لاپتہ ہوئے تھے اور اس معاملے کی ایف آئی آر گزشتہ سال 5 مئی کو خانیوال ہی میں سرائے سدھو پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔
عبدالرحمان نامی شخص کے خلاف ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ 2011ء میں ایک بم دھماکے کے بعد سے وہ نامعلوم افراد کی حراست میں ہے۔
ڈی پی او خانیوال کے سامنے اس ماہ دیے گئے محمد حنیف کے ایک ریکارڈ شدہ بیان سے پہلے غلام سجاد کا پتہ ٹھکانہ معلوم نہیں تھا، جس کے مطابق اس نے غلام سجاد سے 2009ء میں ملاقات کی تھی، جب وہ آرمی کی حراست میں تھا۔
تاہم حنیف کو اس کے حراستی مقام کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، اس نے کہا کہ اس کے بعد غلام سجاد کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
عبدالرحمان بھی دیگر لاپتہ افراد میں شامل ہے، جسے 2011ء میں نامعلوم افراد نے اُٹھایا تھا، اس سے پہلے اس کے بھائی کو فیصل آباد پولیس نے اسی سال انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء ایکسپلوسیو ایکٹ کے تحت پکڑا تھا۔
سماعت کے موقع پر عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دیا اور پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت کیں کہ دو ہفتوں میں جامع رپورٹ پیش کریں۔
کیس کی سماعت کو اگلی رپورٹ جمع کروانے تک ملتوی کردیا گیا۔
http://urdu.dawn.com/2013/08/13/jit-divided-over-status-of-two-missing-men/